Aaj News

کن ممالک کے سربراہان عوامی احتجاج کے دوران ملک چھوڑ کر فرار ہوئے؟

ایسے طاقتور رہنما جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی انہیں اقتدار سے الگ کر سکتا ہے۔
اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2025 05:35pm

جب کسی معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور حکمرانوں کی بے حسی انتہا کو چھونے لگتی ہے، تو عوام اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے خود ہی انصاف کرنے نکل پڑتے ہیں۔ ایسے احتجاج کبھی تو ناکام ہوجاتے ہیں مگر بعض اوقات عوامی غم و غصے کی یہ لہر اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ حکمران اقتدار چھوڑنے پر مجبور اور بعض اوقات ملک سے ہی فرار ہوجاتے ہیں.

ایسے کئی طاقتور رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی انہیں اقتدار سے الگ کر سکتا ہے، مگر عوامی مزاحمت اور حالات کی شدت نے انکا دھڑن تختہ یا مفروری تک پر مجبور کر دیا۔

یہ فہرست طویل ہے مگر اس میں حال ہی میں شامل ہونے والا نیا نام مڈغاسکر کے صدر کا ہے۔

اینڈری راجویلینا

مڈغاسکر کے سابق صدر اینڈری راجویلینا کو حال ہی میں ملک بھر میں پانی اور بجلی کی شدید کمی کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج کے باعث اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہ احتجاج جلد ہی کرپٹ سیاسی خاندانوں کے خلاف آزادی کی تحریک میں تبدیل ہوگیا، جس کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے راجویلینا ملک سے فرار ہوگئے۔

بشار الاسد

2024 میں شام کی خانہ جنگی عروج پر پہنچی تو صدر بشار الاسد اور ان کے خاندان کی 51 سالہ حکمرانی، روس اور ایران کی حمایت کے باوجود باغی گروہوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔ روس نے انہیں سیاسی پناہ دی اور وہ اس وقت روس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

شیخ حسینہ

حسینہ واجد بنگلہ دیش کی سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہیں۔ اگست 2024 میں حکومت مخالف مظاہروں نے زور پکڑا تو اس کے خلاف کریک ڈاؤن میں تقریباً 1,400 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جس کے نتیجے میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور شیخ حسینہ بھارت فرار ہو گئیں اور اب بھی ہندوستان میں مقیم ہیں۔

وہ 1996 میں پہلی بار وزیر اعظم بنیں اور پھر 2008 سے جلاوطنی تک اس عہدے پر فائز رہیں۔

گوٹابایا راجا پکسے

سری لنکا میں جولائی 2022 میں ملک میں سنگین معاشی بحران اور ایندھن کی کمی کے باعث شروع ہونے والے مظاہروں میں گوٹابایا راجا پکسے نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

پرتشدد مظاہرے ملک بھر میں پھیلنے لگےتو صدر گوٹابایا راجا پکسے مالدیپ فرار ہوگئے۔ جب وہ دو ماہ بعد وطن واپس لوٹے تو سری لنکا مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا۔

اس بحران کا ذمہ دار راجا پکسے اور ان کے خاندان کو ٹھہرایا گیا۔ انہیں عہدۂ صدارت اور انکے بھائی مہندرا راجا پکسے، جو اس وقت وزیراعظم تھے، کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔

وکٹر یانوکووچ

فروری 2014 میں یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔ جس کے بعد ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔

اس احتجاج کے باعث ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔ وہ ملک سے فرار ہو کر روس چلے گئے، جہاں انہیں روسی حکومت نے پناہ دی۔

معمر قذافی

لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی عرب دنیا کے طاقتور رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، 2011 میں ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اقتدار سے محروم ہو گئے۔ یہ تحریک عرب بہار کے نتیجے میں شروع ہونے والی بغاوتوں کا حصہ تھی۔

باغی افواج نے لیبیا کے درالحکومت طرابلس پر قبضہ کر کے انہیں اقتدار سے معزول کر دیا تو انہیں اپنے چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ دارلحکومت سے فرار ہونا پڑا۔ وہ اپنے آبائی شہر سرت میں باغی محاصرے کے دوران ہفتوں تک چھپے رہے۔ بعد ازاں مخالف فورسز نے انہیں ایک نالے کے پائپ میں چھپا ہوا پایا، اور گرفتار کر لیا۔

قذافی کی موت کے بعد ان کی لاش کو چند روز تک عوامی نمائش کے لیے رکھا گیا، اور پھر ایک ویران صحرائی مقام پر دفن کردیا گیا۔

مارک راولومانانا

مارک راولومانانا نے 2002 سے 2009 تک مڈغاسکر کے صدر رہے۔ جس کے بعد فوجی بغاوت کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ اس بغاوت کی قیادت اُس وقت دارالحکومت انتاناناریوو کے سابق میئر اینڈری راجویلینا کر رہے تھے، یہ وہی رہنما ہیں جن کی اپنی حکومت کا گزشتہ دنوں خاتمہ ہوا ہے۔

راولومانانا کو معزولی کے دوران ہونے والے تشدد سے متعلق ایک مقدمے میں قتل کی سازش کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس مقدمے کو ”غیر منصفانہ“ قرار دیا۔ پانچ سال سے زائد جلاوطنی کے بعد وہ مڈغاسکر واپس لوٹے، جہاں انہیں گھر سے گرفتار کر لیا گیا اور اگلے سال ان کی سزا ختم کر کے انہیں رہا کر دیا گیا۔

جین برٹرینڈ ارسٹائیڈ

جنوبی امریکی ملک ہیٹی کے صدر جین برٹرینڈ دو بار فوجی بغاوت کا شکار ہوئے۔ پہلی بار 1991 میں حکومت گرنے پر وہ وینزویلا فرار ہوئے، پھر امریکی حکومت کی مدد سے 1994 میں انہیں دوبارہ اقتدار مل گیا۔ 2004 کی عوامی بغاوت کے بعد دوبارہ ملک چھوڑ کر جنوبی افریقہ چلے گئے۔ 2011 میں وہ ہیٹی واپس لوٹے۔

طاقت کا سرچشمہ: عوام

ان تمام رہنماؤں کے ساتھ پیش آنے والے یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں، جو لیڈر کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو ترکیہ کی طرح فوجی بغاوت کو بھی ناکام بنا دیتے ہیں اور خلاف ہوجائیں تو ایوان اور ملک سے بھی بے دخل کردیتے ہیں۔

Libya

Syria

democracy

political crisis

regime change

Madagascar

against shiekh hasina

Gen Z Protests