اسلام آباد میں ٹی ایل پی کے دفاتر سیل، پارٹی پر مکمل پابندی کی سفارش کا فیصلہ
پنجاب بھر میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حالیہ پرتشدد احتجاج کے بعد کریک ڈاؤن جاری ہے۔ اس دوران پنجاب حکومت نے ’انتہاپسند جماعت‘ کے خلاف تاریخی اور سخت فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ اسلام آباد میں ٹی ایل پی کے دفاتر اور مدارس بھی سیل کر دیےگئے ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے دفاتر اور مدارس کو سیل کر دیا گیا ہے۔ وفاقی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے اس اقدام کے تحت ٹی ایل پی کے دفاتر، مساجد اور مدرسوں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مری روڈ کے رورل ایریا، اٹھال چوک میں واقع پارٹی کا مرکزی دفتر سیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح مدینہ ٹاؤن، سملی ڈیم روڈ بھارہ کہو میں قائم ٹی ایل پی کا دفتر بھی انتظامیہ نے بند کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ کارروائی امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں کی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت صوبائی دارالحکومت میں امن و امان سے متعلق ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی، پرتشدد مظاہروں اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کے واقعات پر تفصیلی غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پرتشدد احتجاج، سرکاری املاک کی تباہی اور پولیس افسران کی شہادت میں ملوث عناصر کے خلاف انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔
اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ انتہاپسند جماعت پر باضابطہ طور پر پابندی کی سفارش وفاقی حکومت کو بھیجی جائے گی۔ جماعت کی قیادت کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا جائے گا، جس کے بعد ان کی نقل و حرکت، مالی سرگرمیاں اور سیاسی سرگرمیاں محدود کر دی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی جماعت کے تمام اثاثے، جائیدادیں اور دفاتر محکمہ اوقاف کے حوالے کیے جائیں گے۔
حکومتی اجلاس میں جس جماعت کے بارے میں فیصلہ کیا گیا وہ تحریک لبیک پٌاکستان (ٹی ایل پی) ہے، جس نے حالیہ دنوں میں لاہور اور مریدکے میں پرتشدد مظاہرے کیے اور کئی پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔ اس دوران ایک ایس ایچ او بھی جاں بحق ہوئے۔
حکومتی فیصلے کے مطابق شدت پسند جماعت کے پوسٹرز، بینرز، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور آن لائن پروپیگنڈا نیٹ ورکس کو مکمل طور پر بند کیا جائے گا، جب کہ تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے جائیں گے۔
پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی۔
ماضی میں مذکورہ تمام حکومتی اقدامات ان جماعتوں کے خلاف اٹھائے گئے تھے جنہیں کالعدم قرار دیا گیا۔ ٹی ایل پی بھی اس سے پہلے کالعدم قرار دی جا چکی ہے، جسے 2021 میں بحال کیا گیا تھا۔
غیر قانونی افغان باشندوں کا ڈیٹا اور ٹیکس نیٹ میں شمولیت
اجلاس میں ایک اور اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کا ریئل ٹائم ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا اور انہیں ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا تاکہ مالی سرگرمیوں کی شفاف نگرانی ممکن ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے ایک وِسل بلوئر سسٹم بھی متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ عوام غیر قانونی سرگرمیوں کی اطلاع دے سکیں۔
غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کیلئے الٹی میٹم
اجلاس میں غیر قانونی اسلحے کی بازیابی کے لیے بھی بھرپور مہم کا اعلان کیا گیا۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ایک ماہ کا الٹی میٹم دیتے ہوئے شہریوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام غیر قانونی اسلحہ جمع کرائیں۔ نئے اسلحہ لائسنسز کے اجرا پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے، جبکہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر اب 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ جرم اب ناقابلِ ضمانت قرار دیا گیا ہے۔
مذہبی جماعت کے پرتشدد احتجاجوں کا نو سالہ ریکارڈ جاری
پنجاب پولیس نے مذہبی جماعت کے گزشتہ نو سالوں کے پرتشدد احتجاجوں کا تفصیلی ریکارڈ جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق ان واقعات میں پولیس کو جانی و مالی دونوں اعتبار سے بھاری نقصان پہنچا۔
پولیس ذرائع کے مطابق 2016 سے اب تک مختلف شہروں میں ہونے والے مذہبی جماعت کے پرتشدد مظاہروں میں 11 پولیس اہلکار شہید اور 1648 اہلکار زخمی ہوئے۔ ان میں سے 69 اہلکار مستقل طور پر معذور ہو چکے ہیں، جبکہ 202 اہلکار شدید زخمی ہوئے جنہیں طویل عرصے تک علاج معالجے کی ضرورت رہی۔
پولیس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہونے والے احتجاجوں کے دوران 1194 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
ذرائع کے مطابق مظاہرین کے پتھراؤ، ڈنڈوں اور براہِ راست فائرنگ کے واقعات سے پولیس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جب کہ شہری بھی ان پرتشدد کارروائیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ رپورٹس کے مطابق مظاہرین کے تشدد سے 16 عام شہری ہلاک اور 54 شدید زخمی ہوئے۔
پولیس کے مطابق مظاہرین نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ 97 پولیس گاڑیاں مکمل طور پر ناکارہ اور 2 گاڑیاں نذرِ آتش کی گئیں۔ اس کے علاوہ 10 پولیس عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ نو سالوں میں پرتشدد مظاہروں پر مجموعی طور پر 305 دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے، جب کہ 480 مقدمات دیگر فوجداری دفعات کے تحت قائم کیے گئے۔
تازہ ترین ریکارڈ کے مطابق حالیہ مظاہروں میں 1529 نامزد افراد اور 17 ہزار 812 نامعلوم کارکنان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تمام اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ مذہبی شدت پسندی کے نام پر ہونے والے احتجاج نہ صرف امن عامہ کے لیے خطرہ بنے بلکہ پولیس فورس کو جانی و مالی طور پر تباہ کن نقصان پہنچایا۔
پنجاب پولیس کے مطابق ایسے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالتوں میں کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ریاستی عمل داری بحال کی جا سکے اور مستقبل میں ایسے پرتشدد واقعات کا تدارک ممکن ہو۔
کریک ڈاؤن جاری: سینکڑوں گرفتاریاں
دوسری جانب پنجاب بھر میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حالیہ پرتشدد احتجاج کے بعد کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پولیس کے مطابق لاہور سے اب تک 326 جبکہ پنجاب بھر سے 3400 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ملزمان کو اے، بی اور سی کیٹگری میں تقسیم کر کے نشاندہی کے بعد گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز، سوشل میڈیا ویڈیوز اور انٹیلی جنس رپورٹس کی مدد سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومتِ پنجاب نے دو اسپیشل پراسیکیوٹرز بھی تعینات کر دیے ہیں جو ان مقدمات کی پیروی انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں کریں گے۔
حکومتی ترجمان کے مطابق یہ اقدامات نہ صرف پنجاب میں امن و امان کی بحالی بلکہ ریاستی رٹ کے قیام، انتہاپسندی کے خاتمے، اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کی ایک بڑی پیش رفت ہیں۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔