حماس کا مستقبل، تعمیر نو اور سیاسی ڈھانچہ: غزہ امن منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بھی ابہام برقرار
مصر میں ہونے والی غزہ امن کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت مختلف ممالک کے عالمی رہنماؤں نے شرکت کی تھی، تاہم معاہدے کے بعد اب تین بڑے سوالات نے جنم لیا ہے جو آنے والے دنوں میں اس عمل کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کریں گے۔
پہلا سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ غزہ امن معاہدے اور یرغمالیوں کی گھروں کو واپسی کے بعد حماس کا غزہ میں کیا مستقبل ہوگا۔
حماس کا کیا ہوگا؟
سی این این کے مطابق اطلاعات ہیں کہ گزشتہ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی طرح حماس ایک بار پھر جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر غزہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم اس بار صورتحال مختلف ہے۔
نئے معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج اب بھی غزہ کے نصف سے زائد علاقے میں موجود رہیں گی، اور ان علاقوں میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی بھی مجاز ہوگی تاکہ حماس دوبارہ کنٹرول حاصل نہ کر سکے۔ معاہدے میں عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کی وسیع حمایت اور حماس کے غیر مسلح ہونے کی شق بھی شامل ہے، جس سے اس کے لیے گنجائش مزید محدود ہو گئی ہے۔
اگر حماس نے مکمل طور پر معاہدہ تسلیم نہ کیا، تو غزہ کی بحالی اور تعمیرِ نو ناممکن ہو جائے گی۔
کیا عبوری سیاسی و سلامتی ڈھانچے بن رہے ہیں؟
یرغمالیوں کی رہائی کے بعد معاہدے کا سب سے اہم پہلو غزہ کے لیے عبوری سلامتی فورس اور سیاسی ڈھانچے کا قیام ہے۔
اگر یہ نظام قائم ہو گیا تو ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ کامیاب ہو سکتا ہے، بصورتِ دیگر حماس دوبارہ طاقت کے زور پر قابض ہو سکتی ہے جو امن اور تعمیرِ نو کی تمام امیدوں کو ختم کر دے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ممالک اس عبوری فورس کے لیے فوجی دستے فراہم کرنے کو تیار ہوں گے؟ کیا عبوری حکومت بغیر اندرونی اختلافات کے قائم کی جا سکے گی؟
امریکی سینٹرل کمانڈ نے پہلے ہی غزہ کے باہر اپنی پوزیشنز قائم کر لی ہیں تاکہ صورتحال کی نگرانی اور بین الاقوامی فورسز کے قیام میں سہولت فراہم کی جا سکے۔
امریکی افواج غزہ میں داخل نہیں ہوں گی، تاہم وہ غیر ملکی فوجی شراکت کو یقینی بنانے اور اس فورس کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔
سیاسی عمل کے حوالے سے فیصلہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ کون اس عبوری نظام میں شامل ہوگا۔
کیا غزہ کی تعمیرِ نو کا قابلِ عمل منصوبہ بن رہا ہے؟
غزہ کی تعمیرِ نو ایک دہائی یا اس سے زائد کا عرصہ لے سکتی ہے جس کے لیے سینکڑوں ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔
دس سال قبل امریکا نے موصل (عراق) کی تعمیرِ نو کے لیے ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا تھا، جب شہر داعش کے خلاف ایک سال کی طویل لڑائی کے بعد تباہ ہو گیا تھا۔
مگر غزہ کی تباہی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ اسرائیلی ماہرین کے مطابق یہاں 300 میل طویل سرنگوں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، جو دو دہائیوں میں تعمیر ہوا تھا، اور دنیا نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ٹرمپ منصوبے کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو امریکی قیادت میں عالمی سطح پر مربوط کوشش سے ہی ممکن ہوگی، جس میں عرب اور مغربی اتحادی ممالک کے مالی وسائل شامل کیے جائیں گے۔
تاہم شرط یہ ہے کہ حماس سیکیورٹی کنٹرول سے مکمل طور پر دستبردار ہو۔ بصورتِ دیگر، کوئی ملک غزہ میں تعمیرِ نو کے لیے سرمایہ یا عملہ بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔
Aaj English

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔