غزہ امن معاہدہ: 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، لگ بھگ دو ہزار فلسطینی قیدی بھی وطن واپس
اسرائیلی میڈیا نے فلسطینی تنظیم حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) کے حوالے کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے یرغمالیوں کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب جنوبی غزہ کے شہر خان یونس اور مغربی کنارے کے شہر رام اللہ درجنوں فلسطینی قیدی پہنچائے جاچکے ہیں۔
اس سے قبل اسرائیل نے حماس کی جانب سے 7 یرغمالیوں کو رہا کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حماس کی قید سے رہائی پانے والے یرغمالی ان کے پاس پہنچ چکے ہیں، جو اسرائیل واپس پہنچنے کے بعد ابتدائی طبی تشخیص کے عمل سے گزریں گے۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس نے مرحلہ وار تمام 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا۔ پہلے مرحلے میں 7 اور دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق رہائی پانے والوں میں متان اینگریسٹ، ایتان مور، گلی برمن، زیو برمن، عمری میران، ایلون اوہیل اور گائے گلبوا دلال شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج نے یرغمالیوں کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر رہا کیے گئے اسرائیلیوں کی تصاویر شئیر کیں اور لکھا، ’غزہ میں 738 دن قید رہنے کے بعد ماتان، گالی، زیو، الون، ایتان، عمری اور گائے اپنے گھر واپس آرہے ہیں۔‘
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا عمل صبح سے شروع کیا گیا، تاہم اسرائیلی حکام نے واضح کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام یرغمالیوں کی لاشیں آج واپس نہیں مل سکیں گی۔
حماس کی جانب سے رہا کیے جانے والے 20 یرغمالیوں کے نام
دوسری جانب حماس نے بھی آج رہا کیے جانے والے یرغمالیوں کے نام جاری کر دیے ہیں، جن میں بار کوپرسٹین، ایویاٹار ڈیوڈ، یوسف چیم اوہانہ، سیگیو کالفون، ایوینتن اور الکانہ بوہبوت، میکسم ہرکن، نمرود کوہن، متان زنگاؤکر، ڈیوڈ کینیو، ایٹن ہارن، متان اینگریسٹ، ایتان مور، گلی برمن،، زیو برمن، عمری میران، ایلون اوہیل، گائے گلبوا دلال، روم براسلابسکی، ایریل کونیو شامل ہیں۔
’لاشیں واپس نہیں ملیں گی‘
اسرائیلی حکومت کی ترجمان نے تصدیق کی کہ لاشوں کی تلاش کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا جائے گا جو لاپتہ افراد کے مقامات کی نشاندہی اور باقیات کی بازیابی میں مدد کرے گا۔
غزہ میں قائم ریڈ کراس کے مراکز میں قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کی تیاری مکمل کی گئی۔ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (ICRC) کی بسیں دیرالبلاح کے مقام پر پہنچیں، جہاں اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کی تحویل سے دیا گیا اور ان کے بدلے تقریباً 1700 فلسطینیوں کی رہائی کا عمل مکمل کیا گیا۔ جنہیں غزہ سے پکڑ کر اسرائیلی جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا اور انہیں اقوام متحدہ ”زبردستی لاپتہ کیے گئے افراد“ قرار دیتی ہے۔
جنگیں رکوانے میں ماہر ہوں، پاکستان اور افغانستان کی جنگ بھی رکواؤں گا: امریکی صدر
حماس نے گزشتہ دو برسوں سے 48 اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ میں قید رکھے ہوا تھا۔ ان میں سے 20 کے زندہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے، جب کہ 26 کو اسرائیلی حکام پہلے ہی مردہ قرار دے چکے ہیں۔
ان میں کچھ وہ ہیں جو اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران مارے گئے تھے، جبکہ چند افراد اسرائیلی فضائی حملوں یا قید کے دوران ہلاک ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں کئی افراد 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے دوران اغوا کیے گئے تھے، جن میں نوا میوزک فیسٹیول کے شرکاء بھی شامل ہیں۔
ایک معروف اسرائیلی خاتون نوآ اَرگامانی کو جون میں ایک کارروائی کے دوران زندہ بازیاب کیا گیا تھا، تاہم اس کے ساتھی اویناتن اور سمیت کئی دیگر تاحال لاپتہ تھے۔
حماس ذرائع کے مطابق کچھ یرغمالیوں کی تدفین غزہ کے مختلف علاقوں میں عارضی طور پر کی گئی تھی، اور تمام مقامات کی درست نشاندہی میں وقت لگے گا۔ اسی مقصد کے لیے اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی زیرِنگرانی ایک خصوصی بین الاقوامی ٹاسک فورس تشکیل دی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ 250 ایسے فلسطینی قیدی ہیں جو عمر قید یا طویل سزائیں کاٹ رہے تھے، جن میں سے 135 کو غزہ یا بیرونِ ملک بھیجا جائے گا، جبکہ 100 کو مغربی کنارے منتقل کیا جائے گا۔ 15 قیدیوں کی رہائی مشرقی یروشلم میں ہوگی۔
قیدیوں کو تبادلے سے قبل نگیو کی کیتسیوت جیل اور رام اللہ کے قریب اوفر جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ عمل کو باضابطہ طور پر انجام دیا جا سکے۔
7 اکتوبر حملہ: اسرائیل کا یحیٰی سنوار کا مبینہ تحریری منصوبہ برآمد کرنے کا دعویٰ
ادھر غزہ میں جنگ بندی کے بعد ملبے تلے دبے فلسطینیوں کی لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی حکام کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 124 لاشیں ملبے سے برآمد ہوئیں، جس کے بعد مجموعی شہداء کی تعداد 67 ہزار 806 تک پہنچ گئی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار 66 ہو گئی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق غزہ کے شمالی اور وسطی علاقوں میں تباہ شدہ عمارتوں سے اب بھی انسانی باقیات برآمد ہو رہی ہیں۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر کھدائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں کیونکہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے اب بھی سیکڑوں لاپتہ افراد دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
Aaj English




















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔