حماس کا ٹرمپ کی مصر آمد سے قبل اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کا اعلان
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے معاہدے کے تحت پیر کی صبح اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے اعلیٰ عہدیدار اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ غزہ میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ کل صبح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔
غزہ کی صورت حال میں اہم پیش رفت کے تحت، فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتوار کی شب تک 20 زندہ یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ خبر امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اتوار کو شائع کی تھی۔
حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ غزہ میں مزاحمتی تنظیم کے قبضے میں موجود 48 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پیر کی صبح سے شروع ہوگی۔
حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے اسامہ حمدان نے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ دستخط شدہ معاہدے کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل پیر کی صبح سے طے شدہ طور پر شروع ہوگا اور اس معاملے میں کوئی نئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ”اسرائیل تمام یرغمالیوں کی فوری وصولی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔“
اسرائیلی حکام کا ماننا ہے کہ یہ رہائی اتوار کی شب نصف شب سے قبل عمل میں آ جائے گی تاکہ پیر کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد سے پہلے یرغمالیوں کو اسرائیلی تحویل میں لے لیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق یرغمالیوں کو تین مختلف مقامات سے رہا کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق حماس نے بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے نمائندوں کے حوالے کرنے کے لیے زندہ یرغمالیوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ عمل صبح 6 بجے کے قریب شروع ہوگا۔
تاہم حماس کی جانب سے تاحال رہائی کے مقام کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، اور اسرائیلی حکام کو اس بات کی کوئی معلومات نہیں کہ رہائی کہاں ہوگی یا کتنے مقامات پر عمل مکمل کیا جائے گا۔
ایک اسرائیلی سکیورٹی افسر نے عبرانی اخبار معاریو کو بتایا، ”ہمیں ماضی کے تجربات سے معلوم ہے کہ رہائی سے قبل حماس یرغمالیوں کو ایک جگہ جمع کرتی ہے۔ غالب امکان ہے کہ پچھلے 24 گھنٹوں میں یہی عمل ہوا ہے۔“
غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل امریکی ثالثی کے تحت دونوں فریقین کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے کے مطابق اپنی جیلوں سے تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
مزید برآں، عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے جاں بحق یرغمالیوں کی باقیات اکٹھی کرنا شروع کر دی ہیں تاکہ انہیں اسرائیل کے حوالے کیا جا سکے۔ تاہم خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حماس کچھ لاشوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
اسرائیل کی وزارتِ مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل یہودا اویدان نے ریڈیو چینل کان کو انٹرویو میں کہا، ”میری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے گا کہ ‘نہیں ملی’، اور کچھ خاندانوں کو اپنے پیاروں کی آخری خبر بھی نہیں ملے گی۔ ہم حماس پر کسی معاملے میں اعتماد نہیں کرتے۔“
یاد رہے کہ یہ معاہدہ مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد سامنے آیا، جہاں امریکی مشیر جیرڈ کشنر اورمشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے قطر اور مصر کے ثالثوں کے ساتھ مل کر اسرائیل اور حماس کو ایک معاہدے پر قائل کیا۔
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔