Aaj News

پاکستان کا بھارت-افغان مشترکہ بیان پر سخت ردعمل، افغان سفیر کی دفتر خارجہ طلبی

افغانستان اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیریوں کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا
شائع 11 اکتوبر 2025 10:56pm

پاکستان نے قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے بھارت دورے کے بعد جاری ہونے والے بھارت–افغان مشترکہ بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد میں افغان سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق، پاکستان نے مشترکہ بیان کو “اشتعال انگیز اور غیر ذمے دارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلامیے میں جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ اعلامیے میں کشمیری عوام کی قربانیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا اور دہشت گردی کے معاملے پر گمراہ کن بیانیہ اختیار کیا گیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق، دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دینا حقائق کے منافی ہے، کیونکہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔

AAJ News Whatsapp

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس دہشت گردی کے ٹھوس شواہد متعدد بار افغان حکام کو پیش کر چکا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ چالیس برسوں کے دوران چار لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی میزبانی کی، مگر اب وقت آگیا ہے کہ غیرقانونی مقیم افغان شہری اپنے وطن واپس جائیں۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کو طبی اور تعلیمی ویزے جاری کر رہا ہے اور اسلامی بھائی چارے کے تحت انسانی تعاون جاری رکھے گا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کا خواہش مند ہے، تاہم اپنے عوام اور سرزمین کا تحفظ حکومتِ پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے۔

پاکستان نے افغان حکام سے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کے استعمال سے روکیں اور پاکستان کے خلاف سرگرم گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات کریں۔

دفتر خارجہ نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ بھارت کے بیانیے کا حصہ بننے کے بجائے علاقائی امن و استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔

afghanistan

india

foreign office

پاکستان

regional peace

Kashmir issue

joint statement

UN Resolutions