Aaj News

نوبیل امن انعام کا اعلان آج، ٹرمپ حق دار نہ ٹھہرے تو کون جیتے گا؟

نوبیل انعام برائے امن کا اعلان 10 اکتوبر کو اوسلو میں کیا جائے گا۔
اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2025 01:32pm

عالمی نوبیل امن انعام 2025 کے فاتح کا اعلان آج ناروے کے شہر اوسلو میں کیا جائے گا۔ اس اعلان کو رواں سال دنیا بھر میں جاری تنازعات اور انسانی بحرانوں کے پیش نظر غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ نارویجین نوبیل کمیٹی اس سال ایک ایسا انتخاب کر سکتی ہے جو عالمی سطح پر ایک مضبوط پیغام دے گا۔ عالمی سطح پر یہ قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں کہ کیا اس مرتبہ یہ انعام کسی غیر متوقع یا انتہائی متنازع شخصیت کو بھی دیا جاسکتا ہے؟

نامزدگیوں کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟

نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگیاں مکمل طور پر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ چند ہزار مخصوص افراد ہی نامزدگی کے اہل ہوتے ہیں جن میں قومی اسمبلیوں اور حکومتوں کے اراکین، ریاستوں کے سربراہ، بین الاقوامی عدالتوں کے جج، یونیورسٹیوں میں مخصوص شعبوں (جیسے تاریخ، سیاسیات، قانون وغیرہ) کے پروفیسرز، تحقیقی اداروں کے ڈائریکٹرز اور سابق نوبیل امن انعام پانے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔

نوبیل فاؤنڈیشن کے قوانین کے مطابق نامزد ہونے والے افراد کی فہرست کو 50 سال تک خفیہ رکھا جاتا ہے۔ نارویجن نوبیل کمیٹی (جس میں پانچ اراکین شامل ہوتے ہیں) ان نامزدگیوں کا بغور جائزہ لیتی ہے اور ماہرین سے رائے بھی لی جاتی ہے۔ حتمی فیصلہ کمیٹی میں اکثریت کی رائے سے کیا جاتا ہے۔ یہ پورا عمل جنوری میں شروع ہو کر اکتوبر میں حتمی اعلان پر ختم ہوتا ہے۔

اس سال یہ انعام کیوں اہم ہے؟

مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ، روس یوکرین تنازع اور سوڈان میں انسانی تباہی جیسے سنگین عالمی بحرانوں کے سبب اس سال نوبیل انعام کا فیصلہ بہت اہم مانا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کمیٹی پر دباؤ ہوگا کہ وہ ایسے شخص یا تنظیم کو منتخب کرے جس نے موجودہ حالات میں بین الاقوامی تعاون اور انسانیت کی خدمت کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا ہو۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس سال یہ انعام ان افراد یا گروہوں کو دیا جاسکتا ہے جو جنگ زدہ علاقوں میں انسانی امداد یا آزادیٔ صحافت کے لیے کام کر رہے ہیں۔

دوڑ میں شامل چند اہم نام:

نوبیل انعام برائے امن 2025 کے لیے دوڑ میں شامل افراد کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ فہرست خفیہ رکھی جاتی ہے۔ البتہ کچھ ناموں کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ وہ اس سال کی نامزدگیوں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ:

نوبیل امن انعام 2025 کے حوالے سے اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کا نام توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جوں ہی وہ دوسری مرتبہ صدر بنے، انہوں نے بار بار یہ مؤقف پیش کیا کہ انہیں یہ اعزاز ملنا چاہیے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک آٹھ جنگیں ختم کر چکے ہیں جن میں غزہ، ایران-اسرائیل، پاکستان-بھارت، روانڈا-کانگو اور آرمینیا-آذربائیجان جیسے تنازعات شامل ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نوبل امن انعام کے حوالے سے ہمیشہ غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ انہیں اس انعام کے لیے ماضی میں نامزد بھی کیا جاچکا ہے۔

ان کے بقول ”اگر کوئی شخص امن کے لیے کام کر رہا ہے تو اُسے وہی انعام ملنا چاہیے جو اوباما کو دیا گیا تھا۔“ یہ بیان اُنہوں نے 2020 میں دیا، جب اُن کے حامیوں نے اُنہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔ پاکستان اور اسرائیل سمیت کئی بین الاقوامی شخصیات اور اداروں نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو اس انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

دوسری جانب ناقدین ان کی یکطرفہ خارجہ پالیسیوں اور بین الاقوامی اداروں سے دستبرداری کو امن کے نوبیل انعام کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ سویڈش پروفیسر پیٹر والن اسٹین نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”نہیں، اس سال ٹرمپ کو نوبیل انعام نہیں ملے گا۔“ انہوں نے مزید کہا: ”لیکن شاید اگلے سال۔ تب تک ان کی مختلف کوششوں بشمول غزہ بحران پر گرد بیٹھ چکی ہوگی۔“

پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو (PRIO) ہر سال متوقع فاتحین کی فہرست جاری کرتا ہے۔ اس ادارے کی ڈائریکٹرنینا گریگر نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس انعام کے حق دار قرار پاتے ہیں تو یہ ان کے لیے بہت حیران کن ہوگا۔ اگر چہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر تعریف کے مستحق ہیں لیکن امن کی تجاویز پر مکمل عمل درآمد ہوگا، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

گریٹا تھنبرگ (سویڈش ماحولیاتی کارکن):

گریٹا تھنبرگ نے ’فرائیڈیز فار فیوچر‘ (Fridays for Future) جیسی عالمی نوجوان تحریک کو جنم دیا، جس نے عالمی رہنماؤں کو ماحولیات پر فوری اقدامات کے لیے مجبور کیا۔ حالیہ تنازعات خصوصاً غزہ جنگ پر ان کی امن کے حق میں سرگرمیاں ان کی نامزدگی کو مزید اہمیت دیتی ہیں۔

وہ نوبیل انعام کی دوڑ میں شامل ہونے والی کم عمر ترین اور سب سے زیادہ پہچانی جانے والی کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ اگر وہ جیتتی ہیں، تو اس انعام کی تاریخ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو امن کے لیے ایک اہم خطرہ تسلیم کیا جائے گا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (Committee to Protect Journalists): کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ایک آزاد اور غیر سیاسی تنظیم ہے جو دنیا بھر میں آزادیٔ صحافت کے فروغ اور صحافیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے کام کرتی ہے۔ اسی کے پیش نظر اس تظیم کو ”صحافت کا ریڈ کراس“ بھی قرار دیا گیا ہے۔

سال 2024 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز رہا ہے۔ غزہ سمیت دیگر جنگ زدہ علاقوں میں جان سے ہاتھ گنوانے والے صحافیوں کی غیر معمولی تعداد کے پیش نظر اس سال آزادئ صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو بھی مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے۔

نوبیل کمیٹی ماضی میں بھی آزادیٔ صحافت کی بنیاد پر 2021 میں ماریہ ریسا اور دمتری موراتوف کو انعام دے چکی ہے۔

شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی (قطری وزیراعظم):

قطری وزیراعظم کو مشرق وسطیٰ میں تنازعات میں ثالثی کے کردار، خصوصاً غزہ جنگ کے دوران حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر انہیں انعام دیا جاتا ہے تو یہ دراصل عالمی سطح پر ثالث ریاستوں (Mediator States) کے کردار اور سفارت کاری کے ذریعے پرامن حل کو فروغ دینے کے لیے ایک بڑا پیغام ہو گا.

نوبیل کمیٹی کی جانب سے اب تک کسی نامزدگی کی تصدیق نہیں ہوئی کیونکہ یہ عمل مکمل طور پر خفیہ ہوتا ہے۔ تاہم آفیشل ویب سائٹ کے مطابق سال 2025 کے لیے 338 نامزدگیاں موصول ہو چکی ہیں، جن میں سے 244 شخصیات اور 94 تنظیمیں شامل ہیں۔

Donald Trump

imran khan

Nobel Peace Prize

President Donald Trump

Greta Thunberg

Nobel Prize 2025

Nobel Prize committee