سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کی سماعت لائیو دکھانے کی اجازت دے دی
سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی آئینی بینچ نے منگل کے روز 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درجنوں درخواستوں پر سماعت کی، جو پاکستان کے عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں، چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں کمی اور عدلیہ کی خودمختاری سے متعلق شدید بحث کا باعث بنی ہے۔
سماعت کی صدارت جسٹس امین الدین خان نے کی، جبکہ بینچ نے ابتدائی طور پر اُن درخواستوں پر غور کیا جن میں مکمل فل کورٹ کی تشکیل اور کارروائی کو براہِ راست نشر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے ایڈووکیٹ شاہد جمیل نے فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست دی۔ عدالت نے غور و خوض کے بعد درخواست باقاعدہ طور پر رجسٹر کرنے کا حکم دے دیا۔
اسی دوران سابق چیف جسٹس جاوید ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے عدالت سے استدعا کی کہ کارروائی براہِ راست نشر کی جائے تاکہ عوام کو علم ہو کہ اتنا اہم مقدمہ کس نوعیت کا ہے۔
عدالت نے بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق مقدمے کی لائیو اسٹریمنگ کی اجازت دے دی۔ عدالت نے مزید کارروائی بدھ تک ملتوی کر دی۔
26ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟
اکتوبر 2024 میں منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم پاکستان کے عدالتی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر سامنے آئی۔ اس قانون کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات ختم کر دیے گئے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدتِ ملازمت کو تین سال تک محدود کیا گیا، اور وزیراعظم کو پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سینئر ترین تین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔
ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیلِ نو کی گئی اور بینچز بنانے کے اختیارات میں بھی تبدیلیاں کی گئیں، جس سے پارلیمان اور حکومت کا کردار بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ ریاست کو پابند کیا گیا کہ یکم جنوری 2028 تک مالیاتی نظام سے سود (ربا) کو ختم کرے۔
درخواستیں اور دلائل
مختلف بار ایسوسی ایشنز، تحریک انصاف، سابق ججوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے کُل 36 درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جن میں اس ترمیم کو آئین کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم ”راتوں رات“ بغیر عوامی مشاورت اور پارلیمانی بحث کے منظور کی گئی، اور ممکن ہے کہ اسے آئینی طور پر لازمی دو تہائی اکثریت بھی حاصل نہ ہوئی ہو۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ قانون عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس کے تحت ججوں کی تقرری، بینچوں کی تشکیل اور چیف جسٹس کے انتخاب میں حکومتی اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے، جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔
اہم نکات اور اختلافی پہلو
ترمیم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے ازخود نوٹس کا اختیار ختم کرنا بنیادی حقوق کے تحفظ پر کاری ضرب ہے، کیونکہ یہ اختیار اُن معاملات میں استعمال ہوتا رہا جہاں عام شہری یا کمزور طبقات خود درخواست نہیں دے سکتے تھے۔
دوسری جانب حکومت کے حامی حلقوں کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ کے “غیر ضروری اختیارات” کم ہوں گے اور ادارہ جاتی توازن بحال ہوگا۔
کئی وکلاء اور قانونی ماہرین نے اس ترمیم کو عدالتی آزادی کے خلاف “براہِ راست حملہ” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بینچوں کی تشکیل میں حکومتی مداخلت سے عدلیہ کی غیرجانبداری پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
شفافیت اور عوامی اعتماد کی بحث
درخواست گزاروں نے اس مقدمے کی براہِ راست نشریات کی درخواست دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ ترمیم عوامی نمائندوں کے ذریعے بغیر کھلی بحث کے منظور کی گئی تھی، اس لیے شفاف عدالتی سماعت ہی عوامی اعتماد بحال کر سکتی ہے۔
اس سے قبل بھی تاریخی مقدمات جیسے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعتوں کو براہِ راست نشر کیا جا چکا ہے۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔