امریکی سینیٹ میں حکومتی شٹ ڈاؤن ختم کرنے کی کوشش ناکام، ہزاروں سرکاری برطرفیاں آج سے شروع ہونے کا امکان
امریکی سینیٹ میں حکومتی شٹ ڈاؤن ختم کرنے کی کوشش ایک بار پھر ناکام ہوگئی ہے۔ ریپبلکن پارٹی کا فنڈنگ بل محض 44 ووٹ حاصل کر سکا جبکہ مخالفت میں 54 ووٹ پڑے۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کا قلیل المدتی فنڈنگ بل بھی ناکام ہوگیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق اب حکومتی شٹ ڈاؤن اگلے ہفتے تک طول پکڑ گیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں سرکاری ملازمین کی برطرفیاں آج سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ وائٹ ہاؤس نے مختلف ایجنسیوں میں کٹوتیوں کے لیے فہرست مرتب کر لی ہے۔
یہ شٹ ڈاؤن اپنے تیسرے روز میں داخل ہو چکا ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دباؤ بڑھاتے ہوئے ڈیموکریٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ ریپبلکن منصوبے کو قبول کریں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیموکریٹک ریاستوں اور شہروں کے فنڈز روکنے کی مہم تیز کردی ہے۔ تازہ اقدام کے طور پر شکاگو کی ٹرانزٹ اسکیم کے لیے مختص 2.1 ارب ڈالر منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے مجموعی طور پر 28 ارب ڈالر کے منصوبے بھی روکے جا چکے ہیں۔ بجٹ ڈائریکٹر رس ووٹ نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام اس لیے کیا گیا تاکہ فنڈز ’’نسلی بنیادوں پر ٹھیکے دینے‘‘ میں استعمال نہ ہوں۔
سیاسی محاذ آرائی
ٹرمپ بارہا شکاگو کو اپنی تقریروں میں تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور وہاں نیشنل گارڈ بھیجنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ الی نوائے کے گورنر اور ممکنہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جے بی پرٹزکر نے فنڈز منجمد کرنے کو ’’سیاسی یرغمالی‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس پالیسی سے معیشت اور عام شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جو روزمرہ سفر کے لیے پبلک ٹرانزٹ پر انحصار کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ اور دیگر ڈیموکریٹک علاقوں کے فنڈز بھی نشانہ بنائے جا سکتے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق ٹرمپ مزید لاکھوں وفاقی ملازمین کو برطرف کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جبکہ درجنوں ایجنسیوں نے ملازمین کی کمی کے منصوبے تیار کر لیے ہیں۔
ریپبلکنز اور اختلافی آوازیں
زیادہ تر ریپبلکن رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس دباؤ ڈالنے کے طریقے پر اعتراض نہیں کیا، تاہم کچھ سینیٹرز کا کہنا ہے کہ اس سے مذاکراتی ماحول متاثر ہوگا۔ سینیٹر تھام ٹلس نے خبردار کیا کہ اگر اس انداز میں فنڈز روکے گئے تو اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو پائے گی۔
شٹ ڈاؤن کے اثرات
امریکا کی تاریخ میں یہ 15واں شٹ ڈاؤن ہے، جس کے دوران تقریباً 2 ملین وفاقی ملازمین کی تنخواہیں روک دی گئی ہیں۔ اگرچہ فوجی اہلکار، ایئرپورٹ سیکیورٹی اور بعض دیگر شعبے کام جاری رکھیں گے لیکن لاکھوں سرکاری ملازمین آج سے فارغ کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سرکاری تحقیقی منصوبے، مالیاتی نگرانی اور متعدد سروسز معطل ہو چکی ہیں۔
امریکی حکومت کا تقریباً 1.7 کھرب ڈالر بجٹ منجمد ہے جو کل وفاقی اخراجات کا ایک چوتھائی ہے۔
اس کے علاوہ طویل شٹ ڈاؤن کی صورت میں فضائی سفر متاثر ہونے، فوڈ ایڈ معطل ہونے اور عدالتوں کی بندش کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
اگر یہ بحران جلد حل نہ ہوا تو اکتوبر کے وسط میں وفاقی ملازمین اپنی پہلی تنخواہ سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
حل کی کوئی صورت؟
سینیٹ نے ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں تجاویز مسترد کرنے کے بعد اجلاس پیر تک ملتوی کر دیا ہے جبکہ ایوان نمائندگان بھی آئندہ ہفتے اجلاس نہیں کرے گا، جس کا مطلب ہے کہ کسی ممکنہ سمجھوتے پر فوری پیش رفت نہیں ہوسکتی۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ ڈیڈ لاک برقرار رہا تو موجودہ شٹ ڈاؤن امریکا کی تاریخ کا چوتھا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن جائے گا۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔