جو بائیڈن کی تضحیک: ٹرمپ نے صدارتی واک آف فیم پر سابق صدر کی جگہ ’آٹو پین‘ کی تصویر لگوا دی
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے گلیارے سے ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس نے امریکی سیاست میں نیا طوفان برپا کر دیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی واک آف فیم کی ایک نئی دیوار تعمیر کروائی ہے، جس پر امریکی صدور کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس دیوار پر سابق صدر جو بائیڈن کی تصویر کے بجائے ایک ’’آٹو پین‘‘ کا پورٹریٹ لگا دیا گیا ہے۔ یہ وہی مشین ہے جس کے ذریعے کسی شخصیت کے دستخط خودکار انداز میں بنائے جاتے ہیں۔
مذکورہ ویڈیو بدھ کے روز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس میں دکھایا گیا کہ وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن کے قریب نئی تعمیر شدہ واک آف فیم کی دیوار پر ٹرمپ سمیت تمام صدور کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر موجود ہیں۔ لیکن جہاں جو بائیڈن کی تصویر ہونی چاہیے تھی، وہاں ایک آٹو پین نصب ہے۔
مشہور کمنٹیٹر بینی جانسن نے ایک طنزیہ پوسٹ میں لکھا، ’ٹرمپ کے نئے پریزیڈنشل وال آف فیم کی پہلی جھلک… بائیڈن کی تصویر کی جگہ آٹو پین لگا ہے، وہ جھوٹ نہیں بول رہے تھے‘۔
اس ویڈیو نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں ویوز حاصل کیے اور امریکی سوشل میڈیا پر زبردست بحث چھڑ گئی۔
یہ معاملہ محض ایک مذاق نہیں بلکہ ایک متنازع سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔
’’بائیڈن آٹو پین تنازع‘‘ دراصل ان الزامات سے جڑا ہے جو ری پبلکن رہنماؤں نے بائیڈن پر لگائے کہ وہ اہم سرکاری دستاویزات پر ذاتی طور پر دستخط کرنے کے بجائے مشینی دستخط استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان میں صدارتی معافی نامے اور ایگزیکٹو آرڈرز بھی شامل تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی کانگریس کی ہاؤس اوور سائٹ کمیٹی کے چیئرمین جیمز کومر نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بائیڈن کے عملے نے ان کی لاعلمی میں ان کے نام سے فیصلے کیے۔
جنوری 2025 میں ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر بائیڈن کے 6 جنوری کمیٹی کے معافی ناموں کو ’’باطل اور غیر مؤثر‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا تھا کہ آٹو پین کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے بائیڈن کو اس بات کا علم تک نہیں تھا کہ وہ کن دستاویزات پر دستخط کر رہے ہیں۔
اب ٹرمپ کے وال آف فیم پر بائیڈن کی تصویر ہٹاکر آٹو پین لگائے جانے کو سیاسی ماہرین ایک طنزیہ پیغام قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک دیوار نہیں بلکہ ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ ’’بائیڈن ایک مشینی صدر‘‘ ہیں جن کے فیصلے بھی آٹو پین کے ذریعے ہوتے ہیں۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔