Aaj News

ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کے لیے 45 دن میں قانون سازی کا حکم

آرمی ایکٹ میں عام شہریوں کے لیے اپیل کا مناسب فورم موجود نہیں، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری
اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2025 10:33pm

سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کے لیے حکومت کو 45 روز میں قانون سازی کرنے کا حکم جاری کردیا ہے جب کہ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کے لیے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے،۔

پیر کو سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلوں کے خلاف حکومتی انٹرا کورٹ اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کردیا اور یہ تفصیلی اکثریتی فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری انٹرا کورٹ اپیلوں کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں، عدالت نے ملٹری ٹرائل کا 5 ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔

جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جب کہ جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا۔

جسٹس امین الدین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اضافی نوٹ سے اتفاق کیا جب کہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں خصوصی ٹرائل کی اجازت دے دی تھی۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کے لیے حکومت کو 45 روز میں قانون سازی کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔

تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کے لیے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے، فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کے لیے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کے لیے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔

AAJ News Whatsapp

فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کے لیے وقت لیا، 5 مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آزاد حق اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کے لیے آئینی طور پر مکمل نہیں، حق اپیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قانون سازی کی مداخلت کی ضرورت ہے۔

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اور پارلیمان حق اپیل کیلئے 45 دن میں قانون سازی کریں۔

سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں، ملٹری ٹرائل میں بھی آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاسداری ہونی چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم نہیں، آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے وجود کی نفی نہیں کرتا، 5 رکنی بینچ نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی تھی۔

خیال رہے کہ رواں سال 7 مئی 2025 کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کردیا تھا۔

سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے مختصر فیصلہ سنا دیا تھا اور تفصیلی فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج جاری کیا گیا۔

پس منظر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے لیے گزشتہ سال 6 دسمبر کو جسٹس امین الدین خان کی سرابراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے 9 دسمبر کو اپیلوں پر سماعت شروع کی تھی۔

بعدازاں مقدمے کی سماعت کے دوران آئینی عدالت نے 13 دسمبر 2024 کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے، جس کے بعد فوجی عدالتوں نے پہلے مرحلے میں 21 دسمبر کو 20 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزا سنائی تھی جبکہ 26 دسمبر کو دوسرے مرحلے میں عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی سمیت 60 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔

یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا۔

اس دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔

مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

Supreme Court

اسلام آباد

Military Court

military court trail