غیر معمولی ذہانت والی پاکستانی نژاد طالبہ، جس کے خواب نے اسے آکسفورڈ تک پہنچا دیا
لندن کے مضافات میں پلنے والی ایک خاموش اور پڑھاکو لڑکی نے دنیا کو حیران کر دیا۔ 18 سالہ پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور چیمہ نے اے لیول کے امتحانات میں 24 مضامین میں اے گریڈ حاصل کر کے نہ صرف ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا بلکہ دنیا بھر کے طلبہ کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کر دی ہے۔
یہ وہی ماہ نور ہیں جنہوں نے محض 16 برس کی عمر میں جنرل سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (جی سی ایس ای) کے 34 مضامین میں شاندار کامیابی حاصل کر کے سب کو چونکا دیا تھا۔ اس بار ان کی کامیابی نے انہیں براہِ راست آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور ایگزیٹر کالج تک پہنچا دیا ہے، جہاں وہ اپنا خواب پورا کرنے یعنی ”میڈیسن کی تعلیم“ حاصل کرنے جا رہی ہیں۔
ایک بچپن جو عام نہیں تھا
بی بی سی کے مطابق ماہ نور کی والدہ طیبہ چیمہ، یاد کرتی ہیں کہ بچپن سے ہی ان کی بیٹی دوسروں سے مختلف تھی۔ ’جب بھی کتابیں لیتے، وہ اصرار کرتی کہ پوری سیریز خریدی جائے۔ ہمیں لگتا کہ اسے ختم کرنے میں کئی دن لگیں گے مگر وہ محض دو دن میں سب ختم کر دیتی۔‘
یہی غیر معمولی شوق انہیں اپنے ہم عمروں سے الگ کرتا رہا۔
اسکول میں اکثر وہ ان اسباق کو پہلے ہی پڑھ چکی ہوتیں جو کلاس میں پڑھائے جاتے۔
ماہ نور ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’اساتذہ مجھے ایک کونے میں بٹھا دیتے اور ایک الگ ورک شیٹ تھما دیتے۔ لیکن مجھے وہ بھی مشکل نہ لگتی‘۔

خاندان کی قربانیاں
ماہ نور کے والد بیرسٹر عثمان چیمہ اس کامیابی کو پورے خاندان کی جیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک بیٹیوں کی کامیابی دراصل اگلی نسل کی کامیابی ہے۔ ماہ نور نے یہ ثابت کیا کہ اگر بچیوں کو موقع اور سہولت ملے تو وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں نمایاں ہو سکتی ہیں۔‘
چیمہ فیملی نے پاکستان سے برطانیہ ہجرت بھی اسی مقصد کے لیے کی تاکہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دی جا سکے۔

ماہ نور کی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے وہ کورس کتابیں منگوائیں جو عام طور پر بڑے طلبہ پڑھتے ہیں۔
عثمان کے مطابق ’ماہ نور نے سات سال کی عمر میں او لیول کا ریاضی کا کورس ختم کر لیا تھا۔‘
ایک جینیئس کی پرورش
ماہ نور کے والدین کے مطابق غیر معمولی ذہانت رکھنے والے بچے کی پرورش آسان نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے بچے کو صرف باتوں سے نہیں بہلایا جا سکتا۔ اسے منطق اور جواز دینا پڑتا ہے۔‘
طیبہ چیمہ کہتی ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کی محنت رنگ لائی۔

خواب جو حقیقت بن گیا
ماہ نور کا خواب تھا کہ وہ طب کے شعبے میں جائیں۔
اپنے دادا دادی کی بیماری نے انہیں ڈاکٹر بننے کا حوصلہ دیا۔
وہ خوشی سے بتاتی ہیں کہ ’آکسفورڈ یونیورسٹی سے میڈیسن کی پیشکش ملنا بچپن کا خواب پورا ہونے جیسا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں چاند پر ہوں‘۔
عالمی ریکارڈز کی فہرست
جی سی ایس ای میں 34 مضامین میں شاندار کامیابی۔
اے لیول میں 24 اے گریڈز۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ مضامین میں نمایاں نمبروں کے ریکارڈ۔
مجموعی طور پر 58 مضامین میں امتحانات دے کر کامیاب ہونے کا کارنامہ۔
ایک نئی کہانی کا آغاز
ماہ نور محض ایک ریکارڈ ہولڈر نہیں، بلکہ ان لاکھوں طالبات کے لیے امید کی کرن ہیں جنہیں اپنے خواب بڑے دیکھنے کی ترغیب چاہیے۔
وہ کہتی ہیں: ’میرے والدین نے مجھے یہ سکھایا کہ دوسروں کو اچھے کام کرتے دیکھ کر ان سے سیکھنا ہے، حسد نہیں کرنا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں آج یہاں کھڑی ہوں۔‘

اب جب وہ آکسفورڈ کی راہداریوں میں قدم رکھیں گی تو یہ صرف ان کی کامیابی نہیں ہو گی بلکہ ایک خاندان، ایک کمیونٹی اور ان تمام بچیوں کی کامیابی ہو گی جو یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ ذہانت اور محنت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔
Aaj English













اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔