یو اے ای کا ’گولڈن ویزا‘ لینے والے پاکستانی اور ایف بی آر بڑی مشکل میں پھنس گئے
فیڈرل ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں پاکستانیوں کو دیے گئے گولڈن ویزوں کے متعلق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے بروقت معلومات حاصل نہ کرنے پر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کے خلاف سخت نوٹس لے لیا ہے۔ یہ گولڈن ویزے ان پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے جنہوں نے یو اے ای میں کم از کم 20 لاکھ درہم (تقریباً 15 کروڑ روپے) کی سرمایہ کاری کی ہے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق ایف ٹی او نے ایف بی آر کی اس مجرمانہ غفلت کو بدانتظامی قرار دیتے ہوئے ممبر ٹیکس پالیسی اور ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسیشن سے رپورٹ طلب کر لی ہے، اور ہدایت کی ہے کہ 29 جولائی 2025 تک باقاعدہ جوابی موقف پیش کیا جائے۔
پانچ سال گزر گئے، ایف بی آر بے خبر رہا
یاد رہے کہ فنانس ایکٹ 2020 کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں شامل کیے گئے سیکشن 175اے کے تحت ایف آئی اے کو ایف بی آر کو امیگریشن، بین الاقوامی سفر اور ویزہ ہولڈرز کی معلومات ریئل ٹائم میں فراہم کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت تب تک ایف آئی اے کو کم از کم وقتاً فوقتاً معلومات فراہم کرنا لازم تھا۔ لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود ایف بی آر نہ تو ریئل ٹائم رسائی حاصل کر سکا اور نہ ہی باقاعدگی سے ڈیٹا لے سکا۔
یہ معاملہ ایک باخبر شہری طارق احمد نے فیڈرل ٹیکس محتسب کو پیش کیا، جس پر نوٹس جاری کر دیا گیا۔
ایف آئی اے کی کارروائی، یو اے ای میں پاکستانیوں کی بے نام سرمایہ کاری بے نقاب
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی شروع کر دی ہے جن کی متحدہ عرب امارات میں کم از کم 20 لاکھ درہم کی جائیدادیں موجود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہزاروں پاکستانی شہریوں نے غیر ملکی جائیدادیں حاصل کیں مگر نہ تو ان کا اعلان ٹیکس گوشواروں میں کیا، نہ ہی سرمایہ کاری کے ذرائع کو قانونی طریقے سے پاکستان سے بھیجا گیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ٹیکس ماہر بشارت قریشی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلے کے دو بڑے پہلو ہیں: اول، بیرون ملک جائیداد کی ملکیت اور اس کا مالیاتی اعلان، اور دوم، زرمبادلہ کی قانونی منتقلی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر اور ایف آئی اے کے درمیان قریبی رابطہ اور معلومات کا تبادلہ ناگزیر ہے، تاکہ ان ہزاروں کیسز کا سراغ لگایا جا سکے جن میں جائیداد نہ ظاہر کی گئی نہ ہی سرمایہ قانونی ذرائع سے منتقل کیا گیا۔
بشارت قریشی نے تجویز دی کہ ٹیکس ریٹرن فارم میں ایک نیا خانہ شامل کیا جائے جس میں پوچھا جائے کہ آیا ٹیکس گزار کے پاس کوئی غیر ملکی پاسپورٹ یا ریذیڈنسی ویزہ موجود ہے، اور اگر ہے تو اس کی بنیاد کیا ہے — سرمایہ کاری یا شہریت؟
قوم کا سرمایہ باہر، ریاست بے بس؟
ٹیکس ماہرین اور مبصرین کے مطابق ایف بی آر کی یہ مجرمانہ خاموشی ایک سنگین قومی معاملہ بنتی جا رہی ہے۔ جب پاکستان میں معاشی بدحالی، زرمبادلہ کی کمی اور عوام پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، وہیں اشرافیہ کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری بیرون ملک کر کے قوم کے مفادات کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ریاست کی کمزور گرفت کا ثبوت ہے بلکہ ایک ایسے منظم مالیاتی فرار کا عکس ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔
فی الحال، نظریں 29 جولائی پر مرکوز ہیں جب ایف بی آر کو فیڈرل ٹیکس محتسب کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنی ہے — یہ دن ایف بی آر کی کارکردگی اور ادارہ جاتی شفافیت کے لیے ایک کڑا امتحان بن سکتا ہے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔