لیاری عمارت حادثہ: ایس بی سی اے افسران سمیت 9 ملزمان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
سٹی کورٹ کراچی میں لیاری کے علاقے میں عمارت گرنے کے افسوسناک واقعے پر پولیس نے گرفتار ملزمان کو جوڈیشل میجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے ملزمان کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس نے حوالے کردیا، گرفتار ملزمان میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے 5 ڈائریکٹرز، 2 ڈپٹی ڈائریکٹرز، ایک انسپکٹر اور عمارت کا مالک شامل ہیں۔
واقعے کا مقدمہ لوکل گورنمنٹ، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے افسر کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں قتل بالسبب، غفلت، لاپرواہی اور املاک کو نقصان پہنچانے سمیت متعدد دفعات شامل کی گئی ہیں۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں ایس بی سی اے کے 6 افسران اور عمارت کے مالک سمیت 14 افراد کو غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق عمارت 1986 میں تعمیر کی گئی تھی اور کافی عرصے سے ناقابل رہائش قرار دی جا چکی تھی۔ 20 فلیٹوں پر مشتمل حصہ ایس بی سی اے کی مجرمانہ غفلت کے باعث گر گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایس بی سی اے افسران کو 2022 سے عمارت کی خستہ حالی کا علم تھا، مگر کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق افسران نے غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں عمارت زمین بوس ہوئی۔حادثے میں مرد، خواتین اور بچوں سمیت 27 افراد جاں بحق جبکہ 4 افراد زخمی ہوئے۔
عدالت میں سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایف آئی آر بلڈنگ گرنے کے بعد درج کی گئی، اور یہ کہ تمام ملزمان کو تین روز بعد گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ مقدمہ کتنے ہیں، جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ صرف ایک مقدمہ درج ہے۔
دوران سماعت وکلاء صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ ایس بی سی اے کے ریکارڈ میں تمام تعمیراتی تفصیلات موجود ہیں، اور عمارت کو خطرناک قرار دیے جانے کا نوٹیفکیشن پہلے ہی جاری کیا جا چکا تھا۔ وکیل نے کہا کہ واقعے میں خود بلڈنگ مالک کی نواسی اور پوتی بھی جاں بحق ہوئیں، اگر علم ہوتا تو وہ اپنے اہل خانہ کو وہاں ہرگز نہ رکھتے۔
وکلاء صفائی نے دعویٰ کیا کہ مقدمے میں شامل تمام دفعات قابلِ ضمانت ہیں اور پولیس کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض افراد کو گرفتار کر کے بعد میں چھوڑ دیا گیا جبکہ کسی بھی وزیر کو نامزد تک نہیں کیا گیا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دی۔
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔