دکان بند کرکے واپس جنوبی افریقہ جانا پڑتا، کیا ٹرمپ ایلون مسک کو امریکہ سے نکالنے والے تھے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیسلا سربراہ ایلون مسک کے درمیان گرما گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک پر شدید تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مسک نے تاریخ میں کسی بھی انسان کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبسڈی حاصل کی، اور اگر یہ حکومتی مالی مدد نہ ہوتی تو انہیں اپنی دکان بند کر کے واپس جنوبی افریقہ جانا پڑتا۔
یہ بیان ٹرمپ اور مسک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، جس کا مرکز ایک نیا مجوزہ ٹیکس بل ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک دھواں دار پوسٹ میں کہا کہ ایلون شاید تاریخ میں کسی بھی انسان سے زیادہ سبسڈی حاصل کرتا ہے، اور اگر یہ سبسڈی نہ ہوتی تو اسے اپنی دکان بند کر کے جنوبی افریقہ واپس جانا پڑتا۔
ایلون مسک کی ٹرمپ کے ٹیکس کٹوتی اخراجات بل پر کڑی تنقید
انہوں نے مزید کہا کہ نہ کوئی راکٹ لانچ ہوتے، نہ سیٹلائٹ بنتے، نہ الیکٹرک گاڑیاں تیار ہوتیں، اور ہمارا ملک بہت ساری دولت بچا لیتا۔ شاید ہمیں DOGE کو اس پورے سبسڈی اور سرکاری معاہدوں پر اچھی طرح نظر ڈالنے کو کہنا چاہیے؟ بہت بڑی بچت ہو سکتی ہے!!!“
اصل تنازع: الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس کریڈٹ
ٹرمپ اور مسک کے درمیان اس تنازعے کی جڑ وہ مجوزہ بل ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کے لیے صارفین کو دی جانے والی 7500 ڈالر کی ٹیکس کریڈٹ ختم ہو جائے گی۔ اس ممکنہ تبدیلی سے الیکٹرک گاڑیاں مہنگی ہو جائیں گی، جس پر ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ ہمیشہ سے ای وی مینڈیٹ کے مخالف رہے ہیں، جو سابق صدر جو بائیڈن کے دور کی پالیسی تھی
ان کا کہنا تھا کہ ایلون مسک کو بہت پہلے سے علم تھا، جب اس نے مجھے صدارت کے لیے بھرپور انداز میں سپورٹ کیا، کہ میں ای وی مینڈیٹ کے سخت خلاف ہوں۔ یہ ایک بے وقوفانہ پالیسی ہے، اور ہمیشہ میری انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ رہی ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں ٹھیک ہیں، لیکن ہر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک ایسی گاڑی رکھے۔
مسک کی سیاسی دھمکی
ٹرمپ کے بیان سے قبل ایلون مسک نے ٹرمپ کے مجوزہ بل جسے ٹرمپ نے بگ بیوٹی فل بل قرار دیا ہے پر تنقید کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اگر یہ بل منظور ہوا تو وہ ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم شروع کریں گے۔
اس معاملے پر دونوں شخصیات کی زبانی جنگ مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، جو نہ صرف واشنگٹن بلکہ سیلیکون ویلی اور آٹو انڈسٹری میں بھی گہری توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔