Aaj News

لاہور: گرینڈ ہیلتھ الائنس کے دھرنے پر رات گئے پولیس کا دھاوا، متعدد افراد گرفتار، مقدمہ درج

پولیس نے دھرنے کے شرکا کے زیر استعمال کافی حصے کو بھی مکمل طور پر خالی کروا لیا
اپ ڈیٹ 29 اپريل 2025 11:29am

لاہور کے علاقے مال روڈ پر گزشتہ تئیس روز سے جاری گرینڈ ہیلتھ الائنس کے دھرنے کے خلاف پولیس نے رات گئے بڑا ایکشن کیا۔ پولیس کی بھاری نفری نے لیڈیز پولیس کے ہمراہ آپریشن کلین اپ کرتے ہوئے مظاہرین کو حراست میں لے لیا اور مال روڈ پر لگے ٹینٹ اکھاڑ دیئے۔ پولیس نے دھرنے کے شرکا کے زیر استعمال کافی حصے کو بھی مکمل طور پر خالی کروا لیا۔

ذرائع کے مطابق گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مظاہرین سرکاری اسپتالوں کی ممکنہ نجکاری کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ گزشتہ روز کلب چوک سے دھرنا ختم کرنے کے بعد مظاہرین نے چیئرنگ کراس پر احتجاج جاری رکھا تھا۔ مظاہرین نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ہر حد تک جانے کا اعلان کیا تھا۔

چئیرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر سلمان حسیب چوہدری نے پولیس کارروائی پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے نہتے اور پرامن مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا ہے، جو ناقابلِ قبول اور غیر جمہوری عمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے دھرنے پر اچانک ریڈ کیا اور مظاہرین کو زدوکوب کیا۔

ڈاکٹر سلمان حسیب نے انکشاف کیا کہ دھرنے کی مرکزی قیادت کو دبانے کے لیے ان کے گھروں پر بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ تمام قائدین محفوظ ہیں اور کسی قسم کے خوف یا دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

اپنے ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر سلمان حسیب نے تمام کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر واٹس ایپ پر بھیجے گئے پیغامات کو چیک کریں اور آئندہ کے لائحہ عمل کے مطابق تیاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ تمام کارکن جلد دوبارہ ایک متفقہ مقام پر اکھٹے ہوں گے اور احتجاج جاری رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا، ”ہم کسی کے آگے جھکنے والے نہیں، ہمارا مطالبہ واضح اور اصولی ہے۔ ہم اپنے حقوق کی جنگ پرامن طریقے سے لڑتے رہیں گے، چاہے اس کے لیے جتنا بھی ظلم سہنا پڑے۔“

پولیس نے دھرنے کے منتظمین اور سینکڑوں مظاہرین کے خلاف دہشت گردی سمیت 11 دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

تھانہ سول لائن میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، ڈاکٹر شعیب نیازی سمیت 8 مرکزی رہنماؤں کو نامزد ملزم قرار دیا گیا ہے، جبکہ 300 سے زائد مظاہرین کو بھی مقدمے میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق 50 سے 60 مظاہرین چاقو، قینچیوں اور ڈنڈوں سے مسلح ہو کر پولیس اہلکاروں پر حملہ آور ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین مختلف جتھوں کی صورت میں فیصل چوک سے نکل کر کلب چوک کی طرف بڑھتے گئے اور سرکاری رکاوٹیں توڑتے ہوئے اہلکاروں پر حملے کرتے رہے۔

ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے سرکاری بیرئیرز گرائے، املاک کو نقصان پہنچایا اور پولیس اہلکاروں کی وردیاں تک پھاڑ ڈالیں۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ پولیس کو فوری کارروائی کرتے ہوئے 26 مشتعل افراد کو موقع پر گرفتار کرنا پڑا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ امن عامہ میں خلل ڈالنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا اور مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔

خیال رہے کہ پیر کی شام مظاہرین نے رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے وزیراعلیٰ آفس (سی ایم آفس) تک رسائی حاصل کی، جس پر پولیس نے فوری ردعمل دیتے ہوئے سی ایم آفس کے مرکزی دروازے کو گھیرے میں لے لیا۔ اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوا، اور پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ مظاہرین نے قیدیوں کی وین کے شیشے توڑ دیے اور نعرے بازی کرتے ہوئے وین کے آگے دھرنا دے دیا۔

دوسری جانب گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہسپتالوں کی ان ڈور سروسز بند کر دی ہیں اور ایمرجنسی سروسز معطل کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین عورتوں کو ڈھال بنا کر پولیس پر قینچی، سرنجوں اور دیگر آلات سے حملے کر رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق چند عناصر احتجاج کو ذاتی مفادات کے لیے پرتشدد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور مظاہرین کو ان کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کی اپیل کی گئی ہے۔

ادھر سرکاری اسپتالوں میں طبی عملے کی ہڑتال گزشتہ 10 روز سے جاری ہے، جس کی وجہ سے سروسز ہسپتال، جناح ہسپتال، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، گنگا رام ہسپتال، چلڈرن ہسپتال سمیت دیگر اداروں میں او پی ڈیز مکمل طور پر بند ہیں۔ ڈاکٹرز نے اپنے کمروں کو تالے لگا دیے ہیں جبکہ نرسز اور پیرامیڈیکس نے آؤٹ ڈور اور پرچی کاونٹرز بھی بند کر دیے ہیں۔ مریضوں اور ان کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ حکومتی سطح پر ابھی تک مظاہرین کے مطالبات پر کوئی باضابطہ پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔

lahore

protest

grand health alliance