Aaj News

صنفی مساوات کی عالمی فہرست جاری، خواتین کے حقوق پر پاکستان کا نیچے سے دوسرا نمبر

اگر ایک مرد 1000 روپے کماتا ہے تو اسی کام کے بدلے ایک عورت کو صرف 818 روپے ملتے ہیں، رپورٹ
شائع 08 مارچ 2025 08:36am

پاکستان کو عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کی گلوبل جینڈر گیپ (صنفی امتیاز) کی 2024 کی رپورٹ میں دنیا کے بدترین ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے، جبکہ اس سے نیچے صرف سوڈان ہے۔ اس کے برعکس، ہمسایہ ملک بنگلہ دیش 99 ویں اور بھارت 129 ویں نمبر پر موجود ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ 2006 میں اس کے آغاز کے بعد سے دنیا بھر میں معاشی اور سیاسی شعبوں میں صنفی برابری میں بہتری آئی ہے، لیکن پاکستان اب بھی پیچھے ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’جنوبی ایشیائی ملک میں خواتین، جو تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ہیں، کو شدید معاشی اور سماجی عدم مساوات کا سامنا ہے۔‘

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 36 فیصد خواتین معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، جبکہ محض 23 فیصد خواتین ورک فورس کا حصہ ہیں۔ ملک میں 4 کروڑ سے زائد خواتین لیبر فورس سے باہر ہیں، جس کی وجہ سے صنفی معاشی برابری کی سطح انتہائی کم ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 18 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔ ’اگر ایک مرد 1000 روپے کماتا ہے تو اسی کام کے بدلے ایک عورت کو صرف 818 روپے ملتے ہیں۔‘

ورلڈ بینک کی رپورٹ بھی اجرتوں اور روزگار کے مواقع میں صنفی فرق کی نشاندہی کرتی ہے اور حکومت و کاروباری اداروں کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’معیشتیں اس خطرے کی متحمل نہیں ہوسکتیں کہ لاکھوں خواتین اور بچیوں کو دوبارہ مشکلات اور ضرورتوں کے دور میں دھکیل دیا جائے۔‘

پاکستان میں زراعت کے شعبے میں صنفی اجرت کا فرق نمایاں ہے، جہاں 68 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں لیکن ان میں سے 76 فیصد کو اجرت نہیں دی جاتی، جبکہ اسی شعبے میں بغیر اجرت کام کرنے والے مردوں کی شرح 24 فیصد ہے۔

کارپوریٹ اور صنعتی شعبے میں خواتین کی قیادت میں نمایاں کمی ہے۔ پاکستان میں منیجریل عہدوں پر محض 0.14 فیصد خواتین ہیں، جبکہ مردوں کی شرح 2.33 فیصد ہے، جو ملک میں کام کی جگہوں پر گہری صنفی تفریق کو ظاہر کرتی ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کا موازنہ سری لنکا سے کیا گیا ہے، جہاں پروفیشنل اور ٹیکنیکل ورک فورس میں صنفی برابری 96.8 فیصد ہے، جبکہ پاکستان میں یہ تناسب 35.8 فیصد ہے جو مردوں کے حق میں زیادہ ہے۔

جنوبی ایشیا مجموعی طور پر تعلیمی میدان میں دوسرے نمبر پر سب سے کم اسکور رکھنے والا خطہ ہے، جہاں تعلیمی حصول کی شرح 94.5 فیصد ہے، جو 2023 کے مقابلے میں 2.5 پوائنٹس کم ہے۔ پاکستان جیسے زیادہ آبادی والے ممالک میں تعلیمی خلا اس کمی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 67 فیصد ہے، جو نیپال کے 78 فیصد کے مقابلے میں کم ہے، جبکہ تمام تعلیمی سطحوں پر اندراج میں بھی نمایاں فرق موجود ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ میں معاشی صنفی برابری میں نمایاں بہتری کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ خواتین کو وسائل، مواقع اور فیصلہ سازی کے عہدوں تک بلا رکاوٹ رسائی حاصل ہو۔

رپورٹ کے مطابق، ’حکومتوں کو چاہیے کہ وہ کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی کے لیے ایسے فریم ورک کو وسعت دیں اور مستحکم کریں جو صنفی برابری کو ایک معاشی ضرورت کے طور پر تسلیم کرے، تاکہ بنیادی ضروریات پوری ہونے کے ساتھ ساتھ جدت کی نئی راہیں کھل سکیں۔‘

پاکستان

Women Rights

Gender Equality