’جین زی‘ ایران میں جاری مظاہروں میں شامل، صدر کا مذاکرات کا وعدہ
ایران میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنسی کی قدر میں کمی کے خلاف مظاہرے متعدد یونیورسٹیوں تک پھیل گئے ہیں، جہاں طلبہ نے دکان داروں اور تاجروں کے ساتھ مل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
نیم سرکاری میڈیا کے مطابق تہران کی چار یونیورسٹیوں میں سیکڑوں طلبہ نے مظاہرہ کیا، جبکہ کم از کم سات مقامات پر بھی احتجاج ہوئے۔
اسی طرح اصفہان کی ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور یزد اور زنجان کے تعلیمی اداروں میں بھی مظاہرے دیکھے گئے۔
پیر کو ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ نے بھی استعفیٰ دے دیا۔
ایران کے صدر مسعود پزیشکیان نے پیر کو تہران میں بڑے مظاہروں کے بعد سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے وزیر داخلہ سے کہا ہے کہ مظاہرین کے جائز مطالبات پر بات چیت کی جائے اور حکومت اس کے لیے عملی اقدامات کرے۔
صدر پزیشکیان نے کہا کہ ”ہمارے ایجنڈے میں بنیادی اقدامات شامل ہیں تاکہ مالیاتی اور بینکنگ نظام میں اصلاحات کی جا سکیں اور عوام کی خریداری کی طاقت کو محفوظ بنایا جا سکے۔“
ایران کی معیشت گزشتہ کئی سال سے امریکی پابندیوں کے بعد دباؤ میں رہی ہے اور اقوام متحدہ کی پابندیاں بھی ستمبر میں دوبارہ نافذ ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں ریال کی قدر منگل کو تقریباً 1.4 ملین ریال فی ڈالر تک گر گئی، جبکہ سال کی شروعات میں یہ 8 لاکھ 17 ہزار 500 ریال فی ڈالر تھی۔
امریکی اور یورپی پابندیوں کے دباؤ اور جون میں مختصر جنگ کے بعد اسرائیل کی ممکنہ کارروائیوں کے خطرے کے باعث ایران میں دسمبر میں مہنگائی 42.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ محاجرانی نے کہا کہ حکام مظاہرین کی آواز کو تسلیم کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ احتجاج لوگوں کی زندگیوں پر دباؤ کے باعث پیدا ہوا ہے۔
اس دوران حکومت نے دارالحکومت میں اپنے حامیوں کی بڑی تعداد کو بھی جمع کیا تاکہ حکومت کی حمایت میں مظاہرہ کیا جا سکے۔
یہ مظاہرے جون میں اسرائیل کے ساتھ مختصر جنگ کے بعد عوام کی جانب سے پہلے بڑے عوامی احتجاج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایران میں پچھلے برسوں میں عوامی مظاہروں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، تاہم، حکومت اور سیکیورٹی فورسز اکثر ان مظاہروں کو دبانے میں کامیاب رہی ہیں۔
حالیہ مثالیں مئی 2022 میں بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج اور 2022 کے آخر سے 2023 کے آغاز تک جوان ایرانی کرد لڑکی جینا مہسا امینی کے حق میں ہونے والے ہنگامے ہیں، جن کی موت ایران کی مشہور ”اخلاقی پولیس“ کی تحویل میں ہوئی تھی۔