اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2025 11:15am

صومالی لینڈ: پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کا منصوبہ بے نقاب کردیا

اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے نے عالمی سطح پر ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے، جس پر پاکستان سمیت متعدد ممالک نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جہاں پاکستان نے نہ صرف اس اقدام کو مسترد کیا بلکہ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے سے متعلق مبینہ منصوبوں پر بھی شدید تشویش ظاہر کی۔

سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کسی صورت قابل قبول نہیں اور ایسے کسی بھی منصوبے کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کے خلاف سمجھا جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان صومالیہ کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کرتا ہے اور صومالی لینڈ کو ایک علیحدہ ملک تسلیم کرنے کے اسرائیلی اعلان کو مسترد کرتا ہے۔

عثمان جدون کا کہنا تھا کہ صومالیہ کی حکومت اس وقت ملک میں استحکام کے لیے اقدامات کر رہی ہے، انتہاپسندی کے خاتمے اور انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں اسرائیل کا یہ اقدام غیر ذمہ دارانہ ہے اور اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے اس فیصلے کی مذمت کریں۔

اسرائیل نے گزشتہ جمعے کو صومالی لینڈ کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ صومالی لینڈ کے صدر نے اس پیش رفت کو تاریخی لمحہ قرار دیا، جبکہ صومالیہ نے اسے اپنی خود مختاری پر حملہ کہا ہے۔

صومالی صدر حسن شیخ محمود نے اسرائیلی اقدام کو ملکی وحدت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔

اسرائیل کے اس فیصلے کی چین، ترکیہ، سعودی عرب، افریقی یونین اور دیگر کئی ممالک اور تنظیموں نے مذمت کی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے مفادات کے لیے دوسرے ممالک میں علیحدگی پسند قوتوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔

افریقی یونین نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے دیگر خطوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں، جو پورے براعظم کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں گی۔

خلیج عدن کے ساحل پر واقع ایک نیم صحرائی علاقے صومالی لینڈ نے 1991 میں صومالی آمر سیاد بری کی حکومت کے خاتمے کے بعد خود کو صومالیہ سے الگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ اسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا، تاہم وہاں ایک فعال حکومت، پولیس نظام اور اپنی کرنسی موجود ہے۔ صومالیہ اب بھی اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دیتا ہے اور کسی بھی قسم کی عالمی منظوری کی سخت مخالفت کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمین نیتن یاہو نے صومالی لینڈ کے صدر سے فون پر گفتگو میں کہا کہ اسرائیل صومالی لینڈ کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس فیصلے کو دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کا موقع قرار دیا۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے کے پیچھے بحیرہ احمر کے خطے میں اسرائیل کے سیکیورٹی مفادات اور ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش جیسی اسٹریٹجک وجوہات بھی شامل ہیں۔

ماضی میں بعض میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی سامنے آ چکا ہے کہ اسرائیل نے غزہ سے بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کی ممکنہ آبادکاری کے لیے صومالی لینڈ سے رابطہ کیا تھا، اگرچہ اسرائیل نے ان رپورٹس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔

صومالیہ اور فلسطینی قیادت نے عندیہ دیا ہے کہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کا فیصلہ فلسطینیوں کی ممکنہ بے دخلی کے منصوبے سے جڑا ہو سکتا ہے، جسے انہوں نے مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔

دوسری جانب، صومالی لینڈ کے کچھ حامی ممالک نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہاں ایک فوجی بندرگاہ چلانے والے متحدہ عرب امارات اور ایتھوپیا نے بھی تاحال کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے فیصلے کی فوری پیروی نہیں کریں گے۔

مجموعی طور پر اسرائیل کا یہ اقدام نہ صرف مشرقی افریقہ بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی نئے سفارتی اور سیاسی تناؤ کا باعث بنتا دکھائی دے رہا ہے، جبکہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق اور صومالیہ کی خود مختاری پر کسی بھی سمجھوتے کے خلاف کھڑا رہے گا۔

Read Comments