زندگی کے طلاق جیسے اہم فیصلوں پر لوگ ’اے آئی‘ کا مشورہ ماننے لگے
پہلے زندگی کے اہم فیصلے ماں باپ، دوست یا ماہر نفسیات کے مشورے کے تحت کیے جاتے تھے لیکن آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں ہر فیصلہ ایک کلک دور ہوتا ہے، مصنوعی ذہانت یا چیٹ بوٹس، جو نہ تھکتے ہیں، نہ جھنجھلاتے ہیں اور نہ ہی فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بریک اپ یا طلاق سے لے کر نوکری چھوڑنے یا ملک بدلنے جیسے بڑے فیصلوں میں لوگ چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹس کو اپنا ’غیرجانبدارمشیر‘ بنا رہے ہیں۔
یہ رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں اے آئی نہ صرف فوری رائے دیتا ہے بلکہ صارف کی گفتگو کی پوری تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ذاتی نوعیت کی ہدایت بھی فراہم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اب اپنے ذاتی، جذباتی اور فیصلہ کن معاملات میں اے آئی کو بطور مشیر استعمال کرنے لگے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق امریکہ کی ریاست نیو جرسی میں رہنے والی ایک خاتون نے چند ماہ کے تعلق کو ختم کرنے سے پہلے ہفتوں تک چیٹ بوٹ سے گفتگو کی۔ خاتون کے مطابق یہ مکالمہ دراصل خود سے بات کرنے کا متبادل تھا، جس سے وہ گریز کر رہی تھی۔ اسی طرح سان فرانسسکو کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کی دنیا سے ذہنی اور جسمانی تھکن کا شکار ایک اور خاتون نے اپنا مستقبل کسی انسان کے بجائے الگورتھم کے سامنے رکھا۔ پرسکون زندگی کی تلاش میں اس نے فرانس کے ایک چھوٹے قصبے کا انتخاب کیا، ایک ایسا فیصلہ جس میں اے آئی نے سمت تو دکھائی، مگر مکمل تصویر نہیں۔
یہ رجحان صرف نوجوانوں تک محدود نہیں۔ کینساس کے مائیک براؤن اپنی 36 سالہ شادی کے بارے میں پریشانی میں تھے، انہوں نے بھی حل تلاش کرنے کے لئے اے آئی کا سہارا لیا۔
طلاق جیسے کٹھن فیصلے پر بھی بعض افراد نے انسانی مشیروں کے ساتھ ساتھ چیٹ بوٹس سے ’حتمی تصدیق‘ حاصل کی۔ ان کے نزدیک اے آئی ایک ایسا غیر جانبدار سامع ہے جو نہ جذباتی دباؤ ڈالتا ہے اور نہ اخلاقی وعظ و نصیحت کرتا ہے۔
اوپن اے آئی کی ایک حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے نصف سے زیادہ پیغامات فیصلہ سازی کی ’معلومات‘ مانگنے والے ہوتے ہیں، اور یہ رجحان 20 اور 30 سال کی عمر کے افراد میں سب سے زیادہ ہے۔ کمپنی کے سی ای او سیم آلٹمین نے مئی میں ایک کانفرنس میں کہا کہ نوجوان اب بڑے فیصلے چیٹ بوٹ کے بغیر نہیں کرتے۔
ماہرین اس سہولت پر سوال بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کے مطابق مصنوعی ذہانت کو اس انداز میں تربیت دی جاتی ہے کہ وہ صارف کو مطمئن رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اکثر وہی بات کہتی ہے جو سننے والا سننا چاہتا ہے۔ یہی ’خوش کرنے والا رویہ‘ بعض اوقات غیر مناسب یا نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب بات زندگی بدل دینے والے فیصلوں کی ہو۔
دانشور حلقوں میں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر انسان مسلسل اپنے فیصلے مشینوں کے سپرد کرتا گیا تو اس کی اپنی سوچ، تجزیہ اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اے آئی مددگار ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم سوچنے کی ذمہ داری بھی اس کے حوالے کر رہے ہیں؟
شاید اصل دانش یہی ہے کہ مصنوعی ذہانت کو آئینہ بنایا جائے، فہم و فراست کے لئے انسان خود ہی اپنی ذہانت کو بروئے کار لائے کیونکہ زندگی کے فیصلے محض درست یا غلط نہیں ہوتے، وہ انسان کی پہچان بھی ہوتے ہیں۔