شائع 27 دسمبر 2025 09:12am

چینی گاؤں میں غیر شادی شدہ جوڑوں پر جرمانے، سوشل میڈیا پر شدید ردعمل

چین کے جنوب مغربی صوبے یُنّن کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنائے گئے غیر معمولی سماجی قواعد نے انٹرنیٹ پر شدید بحث کو جنم دے دیا ہے۔ لنکانگ نامی اس گاؤں کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں شادی، حمل اور ذاتی رویّوں سے متعلق سخت جرمانے مقرر کیے گئے تھے۔ ان قواعد کو دیکھتے ہی دیکھتے عوامی غصے اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد مقامی حکام کو مداخلت کرنا پڑی۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق وائرل ہونے والے نوٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ”دیہاتی ضابطۂ اخلاق“ سب کے لیے یکساں ہے، مگر اس میں شامل دفعات نے لوگوں کو چونکا دیا۔ نوٹس کے مطابق اگر کوئی فرد یُنّن صوبے سے باہر شادی کرتا ہے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح شادی سے پہلے حاملہ ہونے والی خواتین، بغیر شادی اکٹھے رہنے والے جوڑے اور شادی کے فوراً بعد بچے کی پیدائش جیسے معاملات پر بھی بھاری رقوم بطور جرمانہ مقرر کی گئی تھیں۔

یہی نہیں، گاؤں کی روزمرہ زندگی کے معاملات کو بھی ان ضابطوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ میاں بیوی کے جھگڑے میں اگر دیہاتی حکام کو مداخلت کرنا پڑے تو دونوں فریقین سے فیس وصول کرنے کی شق شامل تھی۔ نشے کی حالت میں ہنگامہ آرائی یا عوامی خلل ڈالنے پر بھی ہزاروں یوان جرمانے کی تجویز دی گئی۔ حتیٰ کہ افواہیں پھیلانے یا بے بنیاد الزامات لگانے والوں کے لیے بھی مالی سزا مقرر کی گئی تھی۔

ان ضابطوں کے منظرِ عام پر آنے کے بعد چینی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ صارفین نے سوال اٹھایا کہ کیا مقامی دیہاتی کمیٹیاں افراد کی نجی زندگی میں اس حد تک مداخلت کی مجاز ہیں؟ کئی لوگوں نے ان قواعد کو انسانی حقوق، ذاتی آزادی اور جدید چینی قوانین کے منافی قرار دیا۔

بالآخر 16 دسمبر کو قریبی مینگڈنگ ٹاؤن کی انتظامیہ نے معاملے پر وضاحت جاری کی۔ ایک سرکاری اہلکار کے مطابق یہ نوٹس غیر معمولی نوعیت کا تھا اور اسے گاؤں کی کمیٹی نے اپنی مرضی سے، اعلیٰ حکام کو اطلاع دیے بغیر آویزاں کیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ شدید ردِعمل کے بعد نوٹس کو ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں۔

یہ واقعہ چین میں دیہی خودمختاری، سماجی نظم و ضبط اور شہری آزادیوں کے درمیان موجود کشمکش کی ایک جھلک ہے۔ اگرچہ بعض دیہی علاقوں میں روایتی اقدار اب بھی مضبوط ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے دور میں ایسے فیصلے اب خاموشی سے نافذ کرنا ممکن نہیں رہا۔

Read Comments