سعودی عرب میں 30 سال بعد برفباری: صحرا میں برف کیوں گر رہی ہے؟
سعودی عرب، جو عام طور پر تیز گرمی اور وسیع تپتے صحرا کے لیے جانا جاتا ہے، حالیہ دنوں میں ایک غیر معمولی موسم کا سامنا کررہا ہے۔ سعودی عرب کے مختلف حصوں میں برفباری، شدید بارشیں اور درجہ حرارت میں تیزی سے کمی نے نہ صرف لوگوں کو حیرت زدہ کردیا، بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ عالمی سطح پر موسم کس طرح تبدیل ہو رہا ہے؟
سعودی عرب کے شمالی علاقے، خصوصاً تبوک صوبہ، میں برفباری کی اطلاع ملی ہے، جس سے وہاں کی پہاڑیوں کی شکل بدل گئی۔ جبل اللوز کا علاقہ، جو تقریباً 2,600 میٹر کی بلندی پر واقع ہے، مکمل طور پر برف سے ڈھک گیا اور ہلکی بارش بھی ریکارڈ کی گئی۔
سعودی عرب کے ”ہیل“ علاقے کے کچھ حصوں، بشمول ہیل شہر کے گردونواح، میں بھی برفباری دیکھنے کو ملی، جو یہاں بہت کم ہوتی ہے۔ درجہ حرارت کچھ مقامات پر منفی صفر ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔
سعودی عرب کی برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئیں، جس کے نتیجے میں المجمہ اور الغط میں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔
موسم کی شدت کے پیش نظر، دارالحکومت ریاض میں پچھلے ہفتے تمام اسکولوں کو احتیاطی تدابیر کے طور پر آن لائن تعلیم پر منتقل کردیا گیا۔ یہ غیر معمولی موسم لوگوں کے لیے حیرانی کا سبب بن چکا ہے، جس نے حکام کو مزید احتیاطی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔
سعودی عرب کے نیشنل سینٹر فار میٹرولوجی (NCM) کے مطابق، سردی کی یہ لہر شمالی اور وسطی علاقوں میں ایک سرد ہوا کے دباؤ کی وجہ سے آئی، جو بارش سے بھاری بادلوں کے ساتھ ملاپ کر رہی تھی۔ حکام نے لوگوں کو ہدایت دی کہ وہ احتیاط کے طور پر گاڑیاں آہستہ چلائیں اور ایسی وادیوں سے بچیں جو سیلاب کا شکار ہو سکتی ہیں۔
یہ غیر معمولی برفباری سعودی عرب میں موسمیاتی تبدیلی کی بڑھتی ہوئی علامات کو ظاہر کرتی ہے، جو دنیا کے مختلف حصوں میں موسم کی شدت اور نوعیت کو تبدیل کر رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں یواے ای میں غیر متوقع بارشیں، جنوبی ایشیا میں ریکارڈ توڑ گرمی کی لہریں، اور مشرق وسطی میں خشک علاقوں میں اچانک سیلاب کی صورتحال نے ثابت کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر قدرتی آفات کو بڑھا رہی ہے۔
سعودی عرب کی یہ نایاب برفباری موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی ایک اور مثال ہے، جس کا اثر مختلف علاقوں میں اب نمایاں ہو رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا بھر کے ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ موسمی حالات میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں کا ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔