شائع 23 دسمبر 2025 09:38am

چین نے 100 سے زائد بین البراعظمی نیوکلیئر میزائل لوڈ کرلیے: پینٹاگون

امریکی وزارتِ دفاع کے ادارے پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے اپنے تین نئی میزائل سائلوز فیلڈز میں ممکنہ طور پر 100 سے زائد بین البراعظمی بیلسٹک میزائل نصب کر دیے ہیں۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور طاقت کے توازن پر تشویش بڑھ رہی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنی جوہری صلاحیتوں کو دیگر تمام ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے وسیع اور جدید بنا رہا ہے۔

شکاگو میں قائم ادارے ’بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس‘ کے مطابق بیجنگ اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ تاہم، چین ان رپورٹس کو مسترد کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کی فوجی تیاریوں سے متعلق خبریں چین کو بدنام کرنے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چین اور روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں میں کمی کے لیے کسی منصوبے پر کام کر سکتے ہیں، لیکن رائٹرز کے مطابق پینٹاگون کی مسودہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی جانب سے ایسے مذاکرات میں شامل ہونے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بیجنگ نہ تو محدود اقدامات اور نہ ہی جامع اسلحہ کنٹرول بات چیت کے لیے آمادہ دکھائی دیتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین نے منگولیا کی سرحد کے قریب واقع نئے سائلوز میں ٹھوس ایندھن سے چلنے والے ’ڈی ایف 21‘ کے بجائے ’ڈی ایف 31‘ طرز کے 100 سے زائد بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ممکنہ طور پر نصب کر دیے ہیں۔

پینٹاگون اس سے قبل ان سائلوز کے وجود کی اطلاع دے چکا تھا، تاہم میزائلوں کی تعداد پہلی بار سامنے آئی ہے۔

رپورٹ میں ان میزائلوں کے ممکنہ اہداف کی نشاندہی نہیں کی گئی اور امریکی حکام نے کہا ہے کہ رپورٹ قانون سازوں کو بھیجنے سے پہلے تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب پینٹاگون نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، جبکہ واشنگٹن میں قائم چینی سفارت خانے نے کہا کہ چین ایک دفاعی جوہری حکمتِ عملی پر عمل کرتا ہے، اپنی جوہری قوت کو قومی سلامتی کے لیے کم سے کم سطح پر رکھتا ہے اور جوہری تجربات پر عائد پابندی کی پاسداری کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2024 میں چین کے جوہری وارہیڈز کی تعداد کم و بیش 600 کے قریب تھی، جو پچھلے برسوں کے مقابلے میں نسبتاً سست رفتار پیداوار کو ظاہر کرتی ہے، تاہم اس کے باوجود رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی جوہری توسیع جاری ہے اور امکان ہے کہ 2030 تک اس کے وارہیڈز کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر قائم ہے۔

رپورٹ میں چین کی مجموعی فوجی تیاریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ بیجنگ کی منصوبہ بندی کے مطابق وہ 2027 کے اختتام تک تائیوان کے خلاف جنگ لڑنے اور جیتنے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

چین تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور اس کے الحاق کے لیے طاقت کے استعمال کے امکان کو کبھی مسترد نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق چین تائیوان پر قبضے کے لیے مختلف فوجی آپشنز پر کام کر رہا ہے، جن میں طویل فاصلے تک حملوں کی صلاحیت بھی شامل ہے، جو بحرالکاہل کے خطے میں امریکی موجودگی کو متاثر کر سکتی ہے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا اور روس کے درمیان 2010 میں طے پانے والا نیو اسٹارٹ معاہدہ اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کو محدود تعداد میں اسٹریٹجک جوہری وارہیڈز تعینات کرنے کی اجازت دیتا ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے خاتمے سے امریکا، روس اور چین کے درمیان نئی جوہری دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

ادھر رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف مہم کے تحت پیپلز لبریشن آرمی اور دفاعی صنعت میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کی گئی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اسلحہ ساز سرکاری اداروں کے کم از کم 26 اعلیٰ اور سابق عہدیداروں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں، جس کے باعث قلیل مدت میں فوجی تیاری متاثر ہو سکتی ہے، تاہم پینٹاگون کے مطابق یہ اقدامات طویل مدت میں چینی فوج کی مجموعی بہتری کا سبب بن سکتے ہیں۔

ماہرینِ اسلحہ کنٹرول کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں میں اضافہ اور سفارتی کوششوں کی کمی کسی بھی ملک کے لیے سلامتی کی ضمانت نہیں بن سکتی اور عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔

Read Comments