ڈنمارک کی ڈاک سروس کا 400 سال بعد خط رسانی بند کرنے کا اعلان
ڈیجیٹلائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ڈنمارک کی صدیوں پرانی روایت کا خاتمہ کر دیا، جہاں قومی پوسٹل سروس نے 400 سال بعد خطوط کی ترسیل بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ 30 دسمبر سے ملک بھر میں یہ سروس بند کردی جائے گی۔
ڈنمارک کی پوسٹل سروس ’پوسٹ نورڈ‘ رواں برس 30 دسمبر کو اپنا آخری خط پہنچائے گی، جس کے ساتھ ہی 400 سال سے زائد عرصے پر محیط ایک تاریخی باب بند ہو جائے گا۔ پوسٹ نورڈ 2009 میں سویڈن اور ڈنمارک کی پوسٹل سروسز کے انضمام کے بعد قائم ہوئی تھی۔
پوسٹ نورڈ کے مطابق ڈنمارک کے معاشرے میں ’تیزی سے بڑھتی ڈیجیٹلائزیشن‘ کے باعث خطوط کی طلب میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں کمپنی نے خطوط کی ترسیل بند کرنے اور پارسل ڈیلیوری پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کے تحت ڈنمارک میں 1,500 ملازمتیں ختم کی جائیں گی جبکہ 1,500 سرخ ڈاک خانے (پوسٹ بکس) بھی ہٹا دیے جائیں گے۔
دی گارجین کے مطابق کمپنی کا کہنا ہے کہ ڈنمارک دنیا کے سب سے زیادہ ڈیجیٹل ممالک میں شامل ہے، جہاں گزشتہ 25 برسوں کے دوران خطوط بھیجنے کا رجحان 90 فیصد سے زیادہ کم ہو چکا ہے، جبکہ آن لائن خریداری کے رجحان میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پوسٹ نورڈ کے زیرِ استعمال ہزار مخصوص سرخ پوسٹ بکس، جو پہلے ہی ہٹا دیے گئے ہیں، رواں ماہ فروخت کے لیے پیش کیے گئے تو صرف تین گھنٹوں میں فروخت ہو گئے۔
اچھی حالت والے پوسٹ بکس کی قیمت 2 ہزار ڈینش کرونر جبکہ نسبتاً پرانے بکس 1,500 کرونر میں فروخت ہوئے۔ مزید 200 پوسٹ بکس جنوری میں نیلام کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ڈنمارک میں خطوط بھیجنے کا سلسلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا۔ ڈیلیوری کمپنی ’ڈاؤ‘ یکم جنوری سے اپنی خدمات میں توسیع اور 2025 میں تقریباً 30 ملین خطوط کی ترسیل کے مقابلے میں آئندہ سال 80 ملین خطوط پہنچانے کا ہدف رکھتی ہے۔ البتہ صارفین کو خطوط بھیجنے کے لیے ’ڈاؤ‘ کی دکان پر جانا ہوگا یا اضافی فیس کے ساتھ گھروں سے وصول کروانا ہوگا، جبکہ ڈاک کے اخراجات آن لائن یا ایپ کے ذریعے ادا کرنا ہوں گے۔
ڈینش قانون کے مطابق ملک میں خطوط بھیجنے کا متبادل موجود ہونا لازمی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر ’ڈاؤ‘ بھی یہ سروس بند کرے تو حکومت کسی اور ادارے کو یہ ذمہ داری سونپنے کی پابند ہوگی۔
دوسری جانب ماہرین کو خدشہ ہے اگر ڈیجیٹل نظام ناکام ہو جائے تو روایتی ڈاک کے نظام کی طرف واپس جانا انتہائی مشکل ہوگا، خاص طور پر ایسے ملک میں جو پہلے ہی انتہائی ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔
ڈنمارک کے قومی ڈیجیٹل شناختی نظام ’مِٹ آئی ڈی‘ کے تحت بینکنگ، سرکاری دستاویزات اور دیگر سرکاری مراسلات ڈیجیٹل پوسٹ کے ذریعے شیئر کیے جاتے ہیں۔ 15 سال سے زائد عمر کی 97 فیصد آبادی ’مِٹ آئی ڈی‘ میں رجسٹرڈ ہے جبکہ صرف 5 فیصد افراد نے ڈیجیٹل پوسٹ سے دستبرداری اختیار کی ہے۔
اگرچہ نوجوان نسل میں ہاتھ سے خط لکھنے کا رجحان کسی حد تک دوبارہ ابھرتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن مجموعی طور پر ڈنمارک کے عوام نے پوسٹل سروس میں اس تبدیلی کو عملی ضرورت کے طور پر قبول کر لیا ہے۔
پوسٹ نورڈ ڈنمارک کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کم پیڈرسن کے مطابق 400 سال بعد اس روایت کو ختم کرنا آسان فیصلہ نہیں تھا، مگر خطوط کی مسلسل کمی نے اس مارکیٹ کو غیر منافع بخش بنا دیا ہے۔