’دونوں اب عادی مجرم کہلائیں گے‘: عمران اور بشریٰ کو توشہ خانہ ٹو میں سزاؤں پر ردعمل
اسلام آباد کی عدالت نے توشہ خانہ ٹو کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو مجموعی طور پر 17، 17 سال قید کی سزائیں سنا دی ہیں، جس پر حامیوں اور مخالف حلقوں کی جانب سے ردعمل سامنے آرہا ہے۔
ہفتے کو اسپیشل جج سینٹرل شاہ رُخ ارجمند نے اڈیالہ جیل میں کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا۔ جس کے تحت عمران خان اور بشریٰ بی بی کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 کے تحت 10،10 سال قید کی سزا سنائی گئی، جبکہ دفعہ 2، 5 اور 47 کے تحت دونوں پر سات، سات سال کی الگ الگ قید بھی مقرر کی گئی ہے۔
عدالت نے دونوں پر فی کس ایک کروڑ 64 لاکھ 500 روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی پر مزید چھ، چھ ماہ قید کی سزا ہوگی۔
عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ”آج ایک بار پھر آئینِ پاکستان کی دھجیاں اڑا کر عدالتی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب رقم کیا گیا۔“
انہوں نے لکھا کہ ”یہ فیصلہ انصاف نہیں بلکہ سیاسی انتقام، آئینی قتل اور قانون کے ساتھ بدترین مذاق ہے، جسے قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔“
جنید اکبر نے لکھا کہ ”اس غیر آئینی، ظالمانہ اور جانبدار فیصلے کے خلاف تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا کے کارکنان تمام اضلاع میں بھرپور اور پُرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں۔“
سزاؤں پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ”دو مہینے پہلے ہی ہمیں معلوم تھا کہ یہی سزا ہوگی“۔
پی ٹی آئی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شہرام خان ترکئی نے لکھا کہ ”عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف دائر مقدمات سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں ایک خاص بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے انتقامی عدالتی کارروائی جاری ہے، جس کا مقصد عوامی مینڈیٹ رکھنے والی قیادت کو دیوار سے لگانا ہے۔“
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی نے لکھا کہ ”توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 17 سال قید کی سزا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ بطور وزیرِاعظم سرکاری اختیارات اور قومی اعتماد کا غلط استعمال کیا گیا۔“
عابد شیر علی کے مطابق، ”ریاستی تحائف کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا کھلی کرپشن ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”عدالت کا یہ فیصلہ اس بات کی مثال ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور احتساب کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ فیصلہ نظامِ انصاف کی مضبوطی اور کرپشن کے خلاف ایک اہم قدم ہے۔“
ن لیگی رہنما طارق فضل چوہدری نے بھی کہا کہ ”توشہ خانہ 2 کیس میں سنایا گیا فیصلہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کی مبینہ دیانت داری کے بیانیے پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔“
عمران خان اور بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ انہوں نے 2021 میں سعودی عرب کے دورے کے دوران ولی عہد محمد بن سلمان سے حاصل کردہ بلگاری جیولری سیٹ توشہ خانہ میں جمع نہیں کروایا۔ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق عمران خان اور بشریٰ بی بی نے اس بلگاری جیولری سیٹ کی اصل قیمت سات کروڑ پندرہ لاکھ روپے سے زائد تھی، جس کے انہوں نے پرائیویٹ فرم سے 58 لاکھ روپے قیمت لگوائی اور 29 لاکھ روپے دے کر تحفہ اپنے پاس رکھ لیا۔
قیمت کا تعین پرائیویٹ اپریزر صہیب عباس اور پھر کسٹم حکام کے ذریعے کیا گیا۔ پرائیویٹ اپریزر صہیب عباس کے مطابق درخواست گزار کے پرائیویٹ سیکرٹری انعام شاہ نے سیٹ کی قیمت کی کم تشخیص کیلئے دباؤ ڈالا۔ دفتر خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے سے حاصل شدہ ریکارڈ کے مطابق اس سیٹ کی اصل مالیت بہت زیادہ تھی۔
ماہر قانون راجہ خالد ایڈووکیٹ نے بھی آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ”پاکستان آرمی نے اپنے اندر احتساب کا ایک نظام واضح کر رکھا ہے اور جنرل فیض حمید کو سزا دے کر ایک نذیر سیٹ کی ہے۔ ہماری ایگزیکیوٹیو اتھارٹی میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ فیصلہ بالکل قانون کے مطابق ہے“۔
تاہم، سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اور سماجی کارکن محمد اظہر صدیقی نے ”ایک ہی مبینہ معاملے پر مختلف قوانین کے تحت سزاؤں“ کو ”منصفانہ ٹرائل اور بنیادی آئینی حقوق کی کھلی خلاف ورزی“ قرار دیا۔
انہوں نے لکھا کہ ”ایک ہی فعل پر بار بار سزا دینا Double Jeopardy کے اصول اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 13 کی صریح نفی ہے۔“
علاوہ ازیں، سیاست اور پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی حسن ایوب خان نے کہا کہ توشہ خانہ ٹو کیس میں سزاؤں کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی ”عادی مجرم کہلائے جائیں گے“۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور حکومت پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے بھی آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ”بنٹی ببلی کی جوڑی پرانے عادی مجرم ہیں، ان کو چوریاں کرنے کی پرانی عادت تھی“۔
عظمیٰ بخاری نے عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”بانی پی ٹی آئی زکوٰۃ اور خیرات کھانے کے عادی رہے، اسپتال کے نام پر خیرات سے آف شور کمپنیاں بناتے تھے، بانی پی ٹی آئی فارن فنڈنگ سے پارٹی کو چلانے کے عادی رہے“۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نو مئی مقدمات کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ ”یہ ابھی ابتداء ہے۔ آگے انتہا اور قیامت باقی ہے۔“
جمعہ کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ نو مئی کلب چوک جی او آر کے گیٹ پر حملے کے مقدمے میں پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، سرفراز چیمہ اور محمود الرشید کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی، جبکہ پی ٹی آئیرہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا تھا۔
فیصل واوڈا نے عمران خان کا نام لیے بغیرلکھا کہ ”میں کئی سال سے روکتا رہ گیا لیکن میری نہیں سنی اور اُسے وہیں پہنچا دیا اور آگے بھی پہنچائیں گے جہاں سے قانونی اور دنیاوی طور پر واپسی ممکن نہیں۔ اُس کا تکبر اور زُعم جس کی وجہ سے وہ بھی نہیں رُکا اور جن کے بَل بوتے پر تھا سب مزید چکنا چور ہونے جا رہا ہے۔“