طالبان کا افغان سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے کا دعویٰ مسترد: سلامتی کونسل رپورٹ
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (سلامتی کونسل) کو جمع کرائی گئی ایک نئی رپورٹ میں افغان طالبان کے بار بار دہرائے جانے والے اس دعوے پر شدید شکوک کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں طالبان نے کہا ہے کہ کہ افغان زمین سے کوئی عسکریت پسند گروہ کارروائیاں نہیں کر رہا۔ رپورٹ میں اس دعوے کو ”ناقابلِ اعتبار“ قرار دیا گیا ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان کو پڑوسی ممالک خطے میں عدم استحکام کے ایک ممکنہ مرکز کے طور پر دیکھنا شروع کر چکے ہیں۔
یہ تفصیلات اقوام متحدہ کی اینالیٹیکل سپورٹ اینڈ سنکشنز مانیٹرنگ ٹیم کی سولہویں رپورٹ میں سامنے آئی ہیں، جو افغانستان کی سلامتی کی صورت حال پر بڑھتی ہوئی عالمی تشویش کے درمیان جاری کی گئی ہے۔
طالبان نے مسلسل یہ دعویٰ کیا ہے کہ افغان علاقے میں کوئی دہشت گرد تنظیم موجود نہیں اور نہ ہی وہاں سے کارروائیاں کی جا رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ کے مانیٹرز کے مطابق یہ موقف مختلف رکن ممالک کی فراہم کردہ انٹیلی جنس معلومات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، لیکن دیگر عسکریت پسند گروہوں کے بارے میں ان کا رویہ نرم رہا ہے۔ اس غیر متوازن کارروائی سے افغانستان کے اس عہد کی تعمیل پر سوالات اٹھتے ہیں جو 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت کیا گیا تھا، جس میں افغانستان کو اپنی سرزمین دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کا پابند بنایا گیا تھا۔
مانیٹرنگ ٹیم کے مطابق کئی رکن ممالک نے بارہا افغانستان میں مختلف عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی کی رپورٹ دی ہے جن میں داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، جماعت انصاراللہ اور اتحاد المجاہدین پاکستان شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ گروہوں نے افغان زمین کو سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی اور تیاری کے لیے استعمال کیا ہے یا کر رہے ہیں۔
القاعدہ کو خاص طور پر طالبان کے ساتھ مضبوط اور طویل مدتی تعلقات رکھنے والا گروہ قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ گروہ عوامی سطح پر کم دکھائی دیتا ہے، مگر اس کا مختلف افغان صوبوں میں مسلسل وجود ہے اور اسے دوبارہ جمع ہونے اور ٹریننگ کرنے کا ماحول میسر ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ طالبان کی کارروائیوں نے داعش کے علاقائی کنٹرول کو کمزور کیا، لیکن یہ گروہ اب بھی افغانستان اور بیرون ملک میں حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان کو خطے خاص طور پر پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مانیٹرز کے مطابق یہ گروہ افغانستان کے اندر محفوظ ٹھکانوں سے کام کر رہا ہے اور طالبان کے اندر مختلف سطحوں پر اس کی حمایت موجود ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکام ٹی ٹی پی کو روکنے کی ذمہ داری سے انکار کرتے ہیں اور گروہ کے لیے ہمدردی اور وفاداری مختلف طالبان دھڑوں میں موجود ہے۔ بعض سینئر طالبان رہنماؤں کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مشکلات پیدا کرتی ہے، لیکن کچھ رہنما اس کے حامی بھی ہیں۔
تاریخی تعلقات کے پیشِ نظر، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کریں گے، چاہے اسلام آباد کی جانب سے دباؤ ہو یا نہ ہو، اور شاید ان کے پاس یہ صلاحیت بھی موجود نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2025 میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی سرزمین کے خلاف افغان علاقے سے متعدد اہم حملے کیے ہیں، جن کی تعداد کچھ اندازوں کے مطابق 600 سے زیادہ ہے۔ یہ حملے عموماً پیچیدہ اور ہم آہنگ حکمت عملیوں پر مشتمل تھے، جن میں خودکش حملہ آور اور گاڑی بم استعمال کیے گئے، اور زیادہ تر خودکش حملہ آور افغان شہری تھے۔
یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور طالبان کی پالیسیاں خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور طالبان کے دعوے کے برعکس ملک میں متعدد عسکریت پسند گروہ سرگرم ہیں۔