بونڈائی ہیرو احمد اپنے شامی اہل خانہ اور دوستوں کے لیے فخر بن گیا
بونڈائی دہشت گردی کے واقعے میں ایک دہشت گرد کو قابو کرنے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے شامی نژاد احمد الاحمد کی بہادری سے نہ صرف آسٹریلیا بلکہ شام میں واقع اپنے آبائی گاؤں النیراب میں مقیم اہل خانہ اور دوستوں کے لیے بھی فخر بن گئے ہیں۔
آسٹریلوی میڈیا کے مطابق 43 سالہ احمد الاحمد اس وقت سڈنی کے اسپتال میں زیر علاج ہیں، جبکہ ان کے آبائی گاؤں النیراب میں رہنے والے اہل خانہ اور دوست ان کی بہادری کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھ کر متاثر اور فخر محسوس کر رہے ہیں۔
احمد کے چچا وحید الاحمد نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’احمد ایک بہادر اور باعزت شخص ہیں۔ وہ ظلم اور بدعنوانی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ ہر طرح کے ناروا سلوک اور بُرائی کو مسترد کرتے ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ احمد نے وہاں زمین پر پڑے لوگ دیکھے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔
سڈنی واقعہ: حملہ آور کو دبوچنے والے شخص کے لیے لاکھوں ڈالرز چندہ جمع
النیراب میں تقریباً 6 ہزار 500 رہائشی ہیں، جو زیادہ تر زراعت یا تعمیرات میں کام کرتے ہیں۔ احمد الاحمد نے 2000 کی دہائی کے وسط میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کام کی تلاش میں آسٹریلیا کا سفر کیا۔
ان کے چچا نے بتایا کہ احمد نے سفر سے پہلے شام کی فوج میں خدمات انجام دی تھیں اور اسی تجربے کی وجہ سے وہ ہتھیار سنبھالنے میں ماہر تھے۔
گاؤں کے رہائشی عبدالرحمٰن المحمد نے احمد کی شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’احمد ہمارے گاؤں کا بیٹا ہے، بچپن سے ہوشیار، مضبوط اور باہمت رہا ہے۔’
سڈنی: حملہ آوروں کی شناخت ہوگئی، باپ 1998 میں آسٹریلیا آیا تھا، بیٹا مقامی ہے
عبدالرحمٰن نے مزید کہا، ’النیراب کے لوگ احمد الاحمد کی بہادری پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس نے درجنوں معصوم جانیں بچائیں جو دہشت گردی کا شکار ہونے والی تھیں۔‘
احمد الاحمد کی بہادری نے عرب دنیا میں بھی انہیں مشہور کر دیا ہے، جہاں لوگوں نے عرب، مسلمان اور انسانی ہمدرد ہونے کے ناطے ان کی تعریف کی ہے۔
ان کے چچا محمد الاحمد نے کہا کہ ’احمد نے جو انسانی خدمت کی، اس پر ہم سب کو فخر ہے، چاہے وہ لوگ مسلمان ہوں یا عیسائی۔ یہ عمل پوری شامی اور عرب قوم کے لیے باعث فخر ہے۔‘