دُھرندھر، سیارہ، پُشپا: بولی وُڈ کے ’ٹاکسک‘ اور ’ریڈ فلیگ‘ ہیرو رومانس کا ٹرینڈ کیوں بن رہے ہیں؟
بولی ووڈ میں ان دنوں ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے، جہاں ہیرو کی شدت، غصہ اور سرحدوں کی خلاف ورزی کو محبت کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔ دُھرندھر، سیارہ اور پُشپا جیسی فلموں میں دکھائے جانے والے ہیرو خود تو جذباتی طور پر ٹوٹے ہوئے ہیں، لیکن ان کے رویوں کو ”عشق“ اور ”محبت“ کے نام پر رومانٹک بنایا جا رہا ہے۔
ان فلموں میں ہیرو کی غصے میں آ کر خواتین سے بات کرنے، حدوں کی خلاف ورزی کرنے اور شدت دکھانے کو محض محبت اور جذبے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ ٹرینڈ واقعی محبت کی صحیح تصویر پیش کرتا ہے یا یہ معاشرے کے لیے زہر ثابت ہورہا ہے؟
دُھرندھر میں رنویر سنگھ کا کردار حمزہ ایک جاسوس کی شکل میں سامنے آتا ہے جو پاکستان کے نظام کو تباہ کرنے کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک لڑکی کی محبت میں پگھل جاتا ہے۔ حمزہ کی محبت کا اظہار بہت جذباتی ہوتا ہے، وہ لڑکی سے کہتا ہے کہ اگر وہ سوال کرے گی تو وہ دروازہ کھول کر چلی جائے۔ اس طرح کی شدت اور جارحیت کو محبت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بولی وڈ فلم ’دُھرندھر‘ بھارتی سنیما گھروں میں ریلیز
اسی طرح سیارہ میں دھنش کا کردار بھی ایک اور مثال ہے جہاں وہ ایک عورت کے لیے دنیا جلاتا ہے، اور اسے اپنے جذبات کا بدلہ لینے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ کسی کے لیے اتنی شدت سے قربان ہو رہا ہے، تو وہ عورت اس کے بدلے میں اس کا جواب محبت کے ساتھ دے گی۔
پُشپا میں کرش کپور کا کردار بھی ایک ”پروجیکٹ میٹ“ کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو اپنے غصے، شدت اور غیر متوازن جذبات کو ایک نیک دل لڑکی کے ذریعے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ سارے کردار اس بات کی علامت ہیں کہ بولی وُڈ کے ہیرو اب شدت اور غیر صحت مند تعلقات کو ایک نئی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ ان فلموں میں دکھائی جانے والی ”محبت“ دراصل ایک ذہنی بیماری یا جذباتی بدانتظامی کو چھپانے کا طریقہ بن چکی ہے۔ ان فلموں میں وہ لڑکیاں جو ان مردوں سے بے چون و چرا محبت کرتی ہیں، دراصل ایک ایسے تعلق میں بندھی ہوتی ہیں جو ان کی خودمختاری اور عزت نفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔
چند دہائیوں پہلے ’دیو داس‘(2002) اور ’دھڑکن‘ (2003) میں یہی نظر آتا تھا، جہاں ہیرو کا شدت سے محبت کرنا، جبر کرنا اور جذباتی بدسلوکی کو رومانی سمجھا جاتا تھا اور آج بھی ہم وہی کہانیاں دیکھ رہے ہیں، صرف نئے چہرے، نئی پیکنگ کے ساتھ۔
امیتابھ بچن کا فلم ’ڈان‘ کی شوٹنگ کے دوران تکلیف دہ تجربے کا انکشاف
انڈیا ٹوڈے کے مطابق فلمی ماہر گیرش وانکھڑے کا کہنا ہے کہ ایسا ہیرو جو شدت اور جبر کے ذریعے محبت جیتنے کی کوشش کرتا ہے، وہ ان نوجوان مردوں کے لیے ایک جذباتی تسکین فراہم کرتا ہے جو حقیقی زندگی میں اس قسم کے تعلقات میں نہیں جا سکتے۔ ان ہیروز کی شدت ان کی مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو کہ بہت سے ناظرین کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔
پروڈیوسر گیرش جوہر کا ماننا ہے کہ یہ ہیرو عوام کے لیے پرجوش اور جذباتی حیثیت رکھتے ہیں، اور وہ ان میں اپنی پوشیدہ جارحیت کو دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کا سوال یہ ہے کہ یہ جذباتی بدسلوکی اور زہر بھری محبت کیا ہم اپنے حقیقی زندگی میں اپنانا چاہتے ہیں؟
لندن میں ’راج اور سمرن‘ کے مجسمے کی نقاب کشائی
اگر ہم اپنے معاشرتی رویوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان فلموں کے پیغامات پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ سچ اور خوبصورت محبت کو دکھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان ہیروز کی تصویر کشی کریں جو جذباتی طور پر مثبت اور محبت بھری ہوں۔ ’سائرٹ‘ (2016)، ’پیکو ‘ (2015) اور ’بدھائی ہو‘(2018) جیسے فلمیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ محبت کو بغیر شدت کے بھی کامیاب اور رومانٹک دکھایا جا سکتا ہے۔
اگر ہم ہمیشہ ان ٹاکسک ہیروز کو رومانس سمجھ کر دیکھیں گے، تو ہم ایک ایسی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں جہاں محبت میں جبر، تشدد اور شدت کو روایتی سمجھا جائے گا۔ اس سے نہ صرف ہمارے معاشرتی رویے متاثر ہوتے ہیں، بلکہ ہم ایک خطرناک سوچ کو بھی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔
بولی وُڈ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محبت میں جبر یا شدت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک حقیقی ہیرو وہ ہے جو محبت کو عزت، سمجھ داری اور سچائی کے ساتھ پیش کرے، نہ کہ جو ”نہ“ کو چیلنج کے طور پر لے اور حدود کے بغیر محبت کا تاثر دے۔