اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2025 03:45pm

پنجاب میں 25 سال بعد بسنت کی مشروط اجازت: ’صوبہ روایتی سرگرمیوں کی طرف لوٹ رہا ہے‘

پنجاب میں 25 سال بعد ایک بار پھر پتنگ بازی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حکومتِ پنجاب نے بسنت منانے اور پتنگ بازی کی مشروط اجازت کا نیا قانون ‘پنجاب کائٹ فلائینگ آرڈیننس 2025’ جاری کر دیا ہے۔ نئے آرڈیننس کے تحت بسنت کی اجازت تو دی گئی ہے مگر ساتھ ہی سخت شرائط، حفاظتی اقدامات اور سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں تاکہ کسی قسم کا جانی نقصان دوبارہ نہ ہو۔

پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بسنت فروری کے پہلے ہفتے میں منائی جائے گی۔ جبکہ حتمی تاریخ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی منظوری کے بعد جاری کی جائے گی۔

بسنت پر عائد پابندی ختم کرنے کے بعد پنجاب حکومت اب خود اس تہوار کی تشہیر کر رہی ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے پتنگ بازی کے لیے بنائے گئے نئے قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچے پتنگ نہیں اُڑا سکیں گے۔ اگر کوئی کم عمر بچہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کا والد یا سرپرست ذمہ دار ہوگا۔

قانون کے مطابق پتنگ صرف دھاگے سے بنی ڈور سے ہی اُڑانے کی اجازت ہوگی جبکہ دھاتی، کیمیکل لگی یا تیز دھار ڈور کے استعمال پر کم از کم 3 سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

اس کے علاوہ تمام پتنگیں اور ڈوریں صرف رجسٹرڈ دکانداروں سے خریدی جائیں گی۔ ہر دکاندار کو ایک کیو آر کوڈ جاری کیا جائے گا، پتنگ پر بھی کیو آر کوڈ ہوگا، جس سے پتنگ بیچنے والے اور بنانے والے کی شناخت ہو سکے گی۔ ڈور بنانے والے بھی رجسٹریشن کے پابند ہوں گے۔

قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی پہلی خلاف ورزی پر 50 ہزار روپے اور دوسری بار ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ جرمانے کی ادائیگی نہ کرنے پر والدین کے خلاف کارروائی ہوگی۔

بسنت پر پابندی کیوں لگائی گئی تھی؟

بسنت پر پابندی 2001 میں لگائی گئی تھی کیونکہ کیمیکل اور تیز دھار مانجھا راہگیروں اور موٹر سائیکل سواروں کے گلے پر پھر کر اموات کا سبب بن رہا تھا۔

اس کے علاوہ جیت کی خوشی میں ہونے والی ہوائی فائرنگ سے بھی لوگ زخمی اور ہلاک ہوتے تھے۔ پولیس کے مطابق ان واقعات پر کنٹرول مشکل تھا، اس لیے پابندی ضروری سمجھی گئی۔

پنجاب حکومت کی جانب سے بسنت کے اعلان پر پتنگ بازی کے شوقین افراد خوش دکھائی دیے۔

گوہر بٹ نامی سوشل میڈیا صارف نے مریم نواز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سماجی رابطے کی سائٹ ‘ایکس’ پر لکھا: ”لاہوریا ہونے کی حیثیت سے سب سے اچھی خبر میرے لیے یہ ہے کہ لاہور میں بسنت منائی جائے گی”۔

راشد نامی صارف نے بھی لاہور والوں کو بسنت کی مبارکباد دی۔

زوہیب افضل نے لکھا کہ “صوبہ روایتی تہذیبی سرگرمیوں کی طرف دوبارہ لوٹ رہا ہے”۔

دوسری جانب پتنگ بازی سے ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔

‘آئی ایم خانی’ نام کے ایکس ہینڈل سے کی گئی پوسٹ میں کہا گیا کہ “اب اگر بسنت پر کوئی قتل ہوتا ہے تو ڈائریکٹ اس کی ایف آئی آر وزیر اعلیٰ کے خلاف کٹنی چاہیے”۔

صبیح کاظمی نامی ولاگر نے لکھا: “روم کے بادشاہوں کی طرح عوام کو تماشوں میں لگانے کی کوشش، قاتل بسنت تک واپس لے کر آرہے ہیں”۔

بسنت بھارت اور پاکستان کے پنجاب کا قدیم تہوار ہے جو موسمِ بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ سرسوں کے کھیتوں میں پیلے پھولوں کی بہار، رنگ برنگی پتنگیں، میلے اور مقابلے بسنت کی پہچان رہے ہیں۔

انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بسنت کو خصوصی مقبولیت ملی، جبکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی لاہور، قصور، سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں یہ تہوار جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔

نوے کی دہائی میں لاہور بسنت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ موسمِ بہار سے پہلے ہی شہر میں ’بو کاٹا‘ کی گونج سنائی دیتی اور دکانیں رنگ برنگی پتنگوں سے سج جاتیں۔ لاہور ہی نہیں بلکہ قصور، گجرانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر شہروں سے بھی پتنگیں اور ڈوریں تیار ہو کر آتیں، مگر تہوار کے دنوں میں پھر بھی کمی پڑ جاتی۔

موچی گیٹ، بھاٹی گیٹ، ٹکسالی اور اقبال پارک کے آس پاس ہر طرف لوگ ڈور پر مانجھا لگاتے دکھائی دیتے۔

بسنت کی صبح اذان سے پہلے ہی بچے اور بڑے چھتوں پر پہنچ جاتے اور اندھیرے ہی میں پتنگیں اُڑانا شروع ہو جاتیں۔ بگل، شور، نعرے اور بوکاٹا کی آوازیں پورا دن گونجتی رہتیں۔

خواتین، مرد، بچے سب اس موقع کے لیے خاص لباس بنواتے۔ گھروں میں لذیذ پکوان تیار ہوتے اور عزیز و اقارب اکٹھے ہو کر چھتوں پر بسنت کا تہوار بھرپور طریقے سے مناتے تھے۔

Read Comments