شائع 27 نومبر 2025 10:33am

’آبزرویشن میں غلط کیا ہے؟‘؛ نور مقدم کیس میں سپریم کورٹ جج کے اضافی نوٹ پر شدید ردِعمل

سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی کے نور مقدم قتل کیس میں اضافی نوٹ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر لکھے گئے سات صفحات پر مشتمل اس نوٹ میں جہاں بینچ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی حمایت کی گئی، وہیں “لیونگ ریلیشن شپ” کو “معاشرتی بگاڑ” اور “اسلامی تعلیمات کے منافی” بھی قرار دیا گیا۔ اس اضافی رائے نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور قانونی ماہرین کی جانب سے سخت ردِعمل کو جنم دیا ہے۔

جسٹس نجفی نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ “لیونگ ریلیشن شپ (لِیو اِن ریلیشن شپ) کا تصور نوجوان نسل کے لیے خطرناک ہے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے”۔ انہوں نے اسے نور مقدم کیس سے جوڑتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔

تاہم اس رائے کو قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کارکنان نے غیر مناسب اور تکلیف دہ قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی وکیل جلیلہ حیدر نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر لکھا کہ “یہ افسوس کی بات ہے جسٹس باقر نجفی نے اپنے عدالتی نوٹ میں ذاتی جذبات اور ’’دانشوری‘‘ کو شامل کیا”۔ انہوں نے مزید لکھا کہ “جج کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرے اور طے شدہ عدالتی اصولوں کے مطابق فیصلہ کرے، نہ کہ ذاتی جذبات یا اخلاقی لیکچر شامل کرے۔”

جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ “ہمارا ملک پہلے ہی اس قسم کی ذاتی تشریحات اور ’’دانشوری‘‘ کے نتائج بھگت رہا ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “اگر جج صاحب ذاتی جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، تو شاید انہیں گھریلو تشدد کے اگلے مقدمے میں بھی ایک اضافی نوٹ شامل کرنا چاہیے، جس میں یہ لکھیں کہ نکاح جیسے ’پاکیزہ‘ رشتے میں بھی کتنی خواتین اپنے ہی شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں، اور ایسے رشتوں کی اسی شدت سے مذمت کریں۔”

لِیو اِن ریلیشن شپ کیا ہے؟

لِیو اِن ریلیشن شپ اس رشتے کو کہتے ہیں جب ایک لڑکا اور لڑکی (یا دو بالغ افراد) بغیر شادی کیے ایک ہی گھر میں اکٹھے رہنے لگیں۔ یعنی وہ میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں، ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں، ایک ہی گھر شیئر کرتے ہیں، لیکن ان کے درمیان کوئی قانونی شادی نہیں ہوتی۔

یہ رشتہ شادی نہیں ہوتا، اس لیے اس میں وہ قانونی حقوق اور ذمہ داریاں نہیں ملتیں جو شادی شدہ جوڑوں کو ملتی ہیں کچھ ممالک میں اسے قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، جبکہ کچھ معاشروں میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔

اس رشتے میں دونوں افراد کی رضامندی لازمی ہوتی ہے۔ اور یہ عموماً تب ہوتا ہے جب دو لوگ شادی سے پہلے ایک ساتھ رہ کر ایک دوسرے کو بہتر جاننا چاہتے ہیں، یا شادی سے متعلق فی الحال فیصلہ نہ کرنا چاہیں۔

صحافی عبدالوحید مراد نے اضافی نوٹ میں ایک تحریری غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ “بظاہر نظر آتا ہے جسٹس نجفی “live in” ریلیشن شپ کا حوالہ دے رہے تھے اور شاید لاعلمی یا ٹائپو کے باعث غلط لکھ بیٹھے”۔

نور مقدم کے والد کے وکیل شاہ خاور نے جسٹس باقر علی نجفی کے اضافی نوٹ پر مایوسی کا اظہار کیا۔

انہوں نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ جسٹس باقر نجفی کے مذکورہ نوٹ سے اُن کے موکل کی دل آزاری ہوئی ہے۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ جب ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک ملزم ظاہر جعفر کے 342 کے تحت بیان کو جھوٹا قرار دیا گیا تھا، تو پھر اس بیان کا حوالہ دینا غیر ضروری تھا۔ ان کے مطابق عدالت کسی کے بیان کو یا تو درست مانتی ہے یا اسے مکمل طور پر رد کر دیتی ہے، اس کے باوجود اس بیان کا ذکر کرنا قانونی طریقے سے ہٹ کر ہے۔

خیال رہے کہ نور مقدم کو جولائی 2021 میں قتل کیا گیا تھا اور مجرم ظاہر جعفر کو ٹرائل کورٹ نے فروری 2022 میں سزائے موت سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قتل کے ساتھ ساتھ ریپ میں بھی سزائے موت برقرار رکھی تھی، تاہم اس سال مئی میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ان کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔اس سال مئی میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےظاہر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپیل میں ریپ کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جبکہ قتل کی سزا برقرار رکھی۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست اب بھی زیر سماعت ہے۔

ظاہر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھنے والے بینچ میں شامل جسٹس علی باقر نجفی اب وفاقی آئینی عدالت کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ “میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ موجودہ کیس بالائی طبقے میں پھیلتی ہوئی ایک برائی کا براہِ راست نتیجہ ہے، جسے ہم ’لِیو اِن ریلیشن شپ‘ کہتے ہیں، جس میں معاشرتی روایات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اس طرح نہ صرف ملکی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ اسلامی شریعت کے ذاتی قانون کی بھی، جو خدائے بزرگ و برتر کے خلاف براہِ راست بغاوت ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ “نوجوان نسل کو اس کے خوف ناک نتائج کو نوٹ کرنا چاہیے، جیسا کہ موجودہ کیس میں سامنے آیا، جو سماجی اصلاح کے لیے ایک موضوع بھی ہے تاکہ اصلاحی حلقوں میں اس پر گفتگو ہو سکے۔”

صحافی مقدس فاروق اعوان نے بھی اضافی نوٹ پر تنقیدی انداز میں لکھا کہ “نور مقدم کو مرنے کے بعد کیریکٹر سرٹیفیکیٹ دینے کی ضرورت بالکل بھی نہیں تھی”۔

اضافی نوٹ پر تنقیدی سلسلے کے دوران صحافی زاہد گشکوری نے کہا کہ “جو نور مقدم کے “living relations” کی بات کررہے وہ مقدم اور جعفر فیملی کے تعلقات، کیس کی تحقیقات اور کیس کی مکمل فائل سے بالکل نابلد ہیں یا حقائق سے مکمل آگاہ نہیں”۔

انہوں نے رائے دی کہ “نور مقدم کیس ان کھرب پتی نوجوانوں کیلیے ایک کیس سٹڈی ہے جو زندگی میں تمام اقتدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں“۔

دوسری جانب قانون دان میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ “نور مقدم کیس میں جسٹس علی باقر نجفی کی لیونگ ریلیشن شپ کے بارے میں آبزرویشنز پر سیخ پا ہونے والے آخر یہ تو بتائیں کہ اس آبزرویشن میں غلط کیا لکھاہے؟ رضامندی کے ساتھ رہنے والی بات تو خود مقتولہ کے والدین (مدعی)، پراسکیوشن کے گواہوں بشمول پولیس تفتیشی افسران نے ٹرائل کورٹ میں خود تسلیم بھی کی۔ تو جسٹس علی باقر نجفی پر اتنے سیخ پا کیوں ہیں؟ ٹرائل کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق کیس کی تو شروعات ہی لیونگ ریلیشن شپ سے ہوتی ہے”۔

انہوں نے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا، “خونی لبرلز کی اتنی منافقت سمجھ سے بالاتر ہے۔“

کانٹینٹ کریئٹر شمسہ رحمانی نے ایک سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ “ اصل سوال یہ ہے ہمارا معاشرہ آخر کس طرف جا رہا ہے؟ وہ عوامل جو اس بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں، جیسے بغیر نکاح کے جسمانی تعلقات اور ساتھ رہنا، والدین کی غفلت، حد سے زیادہ نرمی یا بے جا سختی، منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال، اور گھر کے اندر تربیت کا فقدان، ان سب پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔“

انہوں نے مزید لکھا کہ “ہمیں صرف انصاف نہیں چاہیے، ہمیں اس سوچ اور اس گندگی کے خلاف جنگ لڑنی ہے جو ہماری نسلوں کو برباد کر رہی ہے۔ اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں، تو کل نہ جانے کتنے گھر اس درد سے گزریں گے۔“۔

ایک اور کانٹینٹ کریئٹر آصف رفیق نے اپنی رائے میں کہا کہ “ہمارے لبرلز کا بھی عجیب مخمصہ ہے۔ نور مقدم کا قتل ایلیٹ کلاس کی پورپین نقالی کا ہی شاخسانہ ہے جس میں لڑکا لڑکی بغیر شادی کے رہ رہے تھے، اسے اگر جج اسلامی شعار کے خلاف لکھے تو انہیں برا لگتا ہے۔ بھائی اس قتل کی یہ وجہ ہے اور اسے لکھنا کیا غلط ہے۔“

تاہم، قانونی مشیر اور وکیل ریما عمر نے جسٹس باقر نجفی کے اضافی نوٹ کی طرفداری کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ “اگر کسی کو ’شرم‘ آنی چاہیے تو وہ جسٹس علی باقر نجفی ہیں۔ اُن کا کام صرف یہ تھا کہ وہ قانون کو سامنے رکھ کر مقدمے کے حقائق پر فیصلہ دیتے، مگر انہوں نے اس کے بجائے اخلاقی پولیس کا کردار اپنا لیا، تقویٰ کا اظہار کیا اور ایک ہولناک جرم کی شکار لڑکی کو ہی مجرم کے عمل کا بالواسطہ ذمہ دار ٹھہرا دیا۔”

ریما عمر کے مطابق، “یہ کہنا ایسے واقعات کسی خاص قسم کے تعلق کا براہِ راست نتیجہ ہیں، انتہائی جہالت کی نشانی ہے۔ ایسا سوچنے والا شخص حقیقت میں جج بننے کے قابل ہی نہیں۔”

کیس کا پس منظر

نور مقدم کے قتل کا واقعہ 20 جولائی 2021 کو پیش آیا جب مقتولہ کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف-7/4 میں واقع ایک گھر سے برآمد ہوئی۔ اسی دن پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کرکے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موقعِ واردات سے گرفتار کر لیا۔ اس قتل نے پورے ملک میں شدید غم و غصہ پیدا کیا اور ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔

فروری 2022 میں ٹرائل کورٹ نے ظاہر جعفر کو قتل کے جرم میں سزائے موت اور ریپ کے الزام میں 25 سال قیدِ سخت کی سزا سنائی۔ اس کے دو ملازمین، محمد افتخار اور جان محمد، جو وقوعہ کے وقت گھر میں موجود تھے، انہیں 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اسی مقدمے میں ظاہر کے والدین، معروف کاروباری شخصیات ذاکر جعفر اور اسما آدم جی، پر اکتوبر 2021 میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ تاہم بعد میں عدالت نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر دونوں کو بری کر دیا۔ اسی طرح تھراپی ورکس کے چھ اہلکار، جو پولیس سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے، پہلے تو ملزم نامزد ہوئے لیکن بعدازاں عدالت نے انہیں بھی بری کر دیا۔ چالان میں الزام تھا کہ والدین اور تھراپی ورکس کے افراد نے جرم کو چھپانے اور ثبوت مٹانے کی کوشش کی۔

مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قتل کی سزائے موت برقرار رکھی اور مزید سخت فیصلہ دیتے ہوئے ریپ کے الزام میں دی گئی 25 سال قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔ ملازمین کی سزا کے خلاف دائر اپیلیں بھی مسترد ہوئیں۔

اس فیصلے کے بعد اگلے مہینے ظاہر جعفر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ اس کی سزا ’’ثبوت کے غلط جائزے‘‘ کا نتیجہ ہے اور ماتحت عدالتیں ایف آئی آر میں موجود ’’بنیادی خامیاں‘‘ سمجھنے میں ناکام رہیں۔

رواں برس مئی میں سپریم کورٹ نے قتل کے جرم میں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی، جبکہ ریپ کے الزام میں سنائی گئی موت کی سزا کو کم کرکے عمر قید کر دیا۔ اس کے بعد ابھی نظرثانی کی درخواست زیر سماعت ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے اضافی نوٹ میں یہ بھی کہا کہ اُن کے نزدیک اس کیس میں سزا میں تخفیف کرنے والے عوامل موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے قرار دیا کیا کہ “وقوعہ کے وقت میں معمولی فرق، پوسٹ مارٹم میں تاخیر، چھری پر انگلیوں کے نشانات نہ ملنے لیکن ڈی این اے میچ ہونے، اور ایف آئی آر کے اندراج میں معمولی تاخیر، یہ سب استغاثہ کے شواہد کی ساکھ کو متاثر نہیں کرتے، کیونکہ شواہد بالواسطہ تھے”۔

انہوں نے لکھا کہ رسی کا ایک سرا نور مقدم کی لاش سے بندھا ہوا ملا اور دوسرا سرا ملزم کی گردن سے بندھا تھا۔

Read Comments