شائع 26 نومبر 2025 09:30pm

نیو دہلی دھماکے کے بعد گرفتاریوں اور ریاستی دباؤ میں کشمیری شہری کی خود سوزی

بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں نیو دہلی کے حالیہ دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں شدت آگئی ہے، جس کے دوران ایک کشمیری نوجوان کی گرفتاری اور اہلِ خانہ کے ہراساں کیے جانے کے واقعے نے ایک جان لیوا سانحے کو جنم دیا۔

ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کی رپورٹس کے مطابق 55 سالہ خشک میوہ فروش بلال احمد وانی کو پولیس نے کچھ دن پہلے پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا تھا، لیکن ان کے بیٹے کو حراست میں رکھا گیا۔

وانی کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ گرفتاریوں اور ہراسانی کے دباؤ کے باعث وانی نے خود کو آگ لگا لی۔ وانی کو تین اسپتالوں میں طبی امداد دی گئی، لیکن وہ اگلے دن دورانِ علاج انتقال کر گئے۔ پولیس کے مطابق ان کی موت خود سے لگائی گئی آگ کے نتیجے میں ہوئی۔

دھماکہ 10 نومبر کو نیو دہلی کے تاریخی ریڈ فورٹ کے قریب ہوا، جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے۔ بھارتی حکام نے فوری طور پر کشمیر پر توجہ مرکوز کی اور وسیع پیمانے پر چھاپے، مشتبہ افراد کی حراست اور ہزاروں افراد سے پوچھ گچھ کی۔ متعدد افراد اب بھی حراست میں ہیں۔

اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ کبھی وانی کو، کبھی ان کے بیٹوں اور رشتہ داروں کو حراست میں لیا جاتا رہا، جس سے گھر میں شدید ذہنی دباؤ اور خوف پیدا ہوا۔ ان کے مطابق یہ گرفتاریاں غیرمنصفانہ تھیں اور خاندان کا کوئی فرد کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔

دہلی دھماکا اور مسلمان ڈاکٹروں کی گرفتاریاں، وجہ کیا ہے؟

خبر رساں ادارے کے مطابق 14 نومبر کو فریدآباد سے ضبط شدہ کچھ دھماکہ خیز مواد سری نگر کے ایک پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں حادثاتی طور پر وہ دھماکہ ہو گیا اور ہلاکتیں ہوئیں۔

حکام اب بھی تحقیقات کر رہے ہیں، تاہم علاقے کے اعلیٰ پولیس افسر نالین پربھات نے کہا کہ دھماکے کا سبب دھماکہ خیز مواد کے غلط انتظام یا ہینڈلنگ ہو سکتا ہے اور کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یہ حادثہ نیو دہلی دھماکے سے الگ واقعہ ہے۔

اے پی کے مطابق بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے دھماکے کے مشتبہ خودکش بمبار کی شناخت عمر النبی کے طور پر کی جو ایک ڈاکٹر تھا۔ اس دوران بھارتی فورسز نے وانی کے خاندان کا گھر بھی منہدم کر دیا تھا۔

پولیس نے مقامی ڈاکٹروں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے خلاف سخت نگرانی بڑھا دی ہے، جس سے علاقے میں خوف اور عدم تحفظ کے احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوتوا حکومت کی قابض پالیسی اور سیاسی انتہا پسندی مقبوضہ کشمیر کے عوام میں گہری ناراضی، محرومی اور عسکریت پسندی کے امکانات کو بڑھا رہی ہے۔

2019 میں بھارت کے خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے مقبوضہ وادی کے عوام میں سیاسی مایوسی اور انتشار بڑھ رہا ہے اور موجودہ سیکیورٹی اقدامات اس کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔

بلال احمد وانی کا واقعہ اس انتہا پسندی کی تازہ مثال ہے، جس میں عام کشمیری شہری بھی ہندوتوا کے سیاسی دباؤ اور ریاستی ہراسانی کی زد میں آ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

Read Comments