اسرائیل کے خلاف اگلی جنگ کی تیاری میں مصروف حزب اللہ رہنما حیثم طبطبائی کون تھے؟
اسرائیل نے ایک بار پھر لبنان میں بڑی کارروائی کرتے ہوئے حزب اللہ کے اعلیٰ ترین عسکری رہنما حیثم علی طبطبائی کو ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ بیروت کے نواح میں ایسے وقت میں کیا گیا جب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے سیزفائر جاری تھا، جسے اس کارروائی کے بعد شدید دھچکا لگا ہے۔
اسرائیلی فوج نے اتوار کو اعلان کیا کہ طبطبائی کو مخصوص ٹارگٹڈ آپریشن میں نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد حزب اللہ نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں ”بہادر اور عظیم جہادی کمانڈر“ قرار دیا اور کہا کہ وہ ”آخری لمحے تک اسرائیلی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے سرگرم رہے۔“
حیثم طبطبائی حزب اللہ کے اُن رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے جنہیں 2023 سے 2024 کی جنگ کے دوران مسلسل نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اسرائیل پہلے ہی ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کی بیشتر اعلیٰ قیادت کو ختم کر چکا ہے، لیکن طبطبائی ایک سالہ سیزفائر کے بعد مارے جانے والے واحد بڑے کمانڈر ہیں۔
طبطبائی 1968 میں لبنان میں ایک ایرانی نژاد والد اور لبنانی والدہ کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ حزب اللہ کے بانی ارکان میں شامل نہیں تھے، لیکن ”دوسری نسل“ کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے شام اور یمن میں بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق وہ 1980 کی دہائی میں حزب اللہ میں شامل ہوئے اور تنظیم کی ممتاز رضوان فورس سمیت کئی اعلیٰ مناصب پر فائز رہے۔ گزشتہ برس جب حزب اللہ کے بڑے کمانڈرز جنگ کے دوران مارے گئے تو طبطبائی تنظیم کے آپریشنز ڈویژن کے سربراہ بن کر تیزی سے ابھرے۔
سیزفائر کے بعد انہیں حزب اللہ کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا، اور اسرائیلی بیان کے مطابق وہ ”اسرائیل کے خلاف اگلی ممکنہ جنگ کی تیاریوں میں بھرپور مصروف تھے۔“
رائٹرز کے مطابق لبنانی سیکیورٹی ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ طبطبائی نے اپنی تیز رفتار ترقی سینیئر کمانڈرز کی ہلاکت کے بعد حاصل کی۔
اسرائیلی سیکیورٹی ریسرچ ادارے الما سینٹر کے مطابق طبطبائی اس سے قبل بھی شام اور لبنان کی جنگ کے دوران کئی حملوں میں بال بال بچے تھے، مگر اس بار وہ بچ نہ سکے۔
حیثم علی طباطبائی کی ہلاکت کو خطے میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے، جس کے اثرات آئندہ دنوں میں لبنان، اسرائیل اور پورے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر پڑ سکتے ہیں۔