اپ ڈیٹ 21 نومبر 2025 11:37am

برطانیہ کی نئی امیگریشن پالیسی: کاروباری افراد کو فاسٹ ٹریک کے تحت تین سال میں مستقل رہائش کی سہولت

برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ زیادہ تر غیر ملکی کارکنوں کو مستقل رہائش کے لیے انتظار کا عرصہ دوگنا کر کے 10 سال اور غیر قانونی تارکین وطن کو 30 سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔

برطانیہ میں پچھلے دس سالوں سے امیگریشن پر بحث چھڑی ہوئی ہے، جس میں حکومتیں غیر ملکیوں کی آمد کو محدود کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، جیسے ویزہ قواعد سخت کرنا اور غیر ملکی کارکنوں کے لیے تنخواہ کے معیار کو بڑھانا۔

رائٹرز کے مطابق لیبر حکومت نے اس نئی تجویز کو ”تقریباً پچاس سال میں قانونی امیگریشن کے نظام کا سب سے بڑا انقلاب“ قرار دیا ہے۔

مستقل رہائش کے لیے درکار قیام کی مدت پانچ سال سے بڑھا کر 10 سال کر دی جائے گی۔ تاہم، این ایچ ایس میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسیں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد ہی مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکیں گے۔ ذہین افراد اور کاروباری افراد (انٹرپینیورز) کے لیے فاسٹ ٹریک سسٹم کے تحت تین سال کے اندر ہی مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

برطانیہ میں مستقل رہائش: اوورسیز افراد کے لیے خوشخبری

این ایچ ایس کے لیے یہ تبدیلی خوش آئند ہو گی، کیونکہ وہاں کی دو تہائی سے زیادہ ڈاکٹر اور نصف نرسیں غیر ملکی تربیت یافتہ ہیں۔ نرسوں کے مرکزی یونین نے انتباہ کیا ہے کہ اگر انتظار کا عرصہ بڑھایا گیا تو 50 ہزار کے قریب غیر ملکی نرسیں ملک چھوڑ سکتی ہیں۔

وزیرداخلہ شابانہ محمود نے پارلیمنٹ میں امیگریشن پالیسی کے حوالے سے تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مستقل رہائش کے خواہشمند افراد کے لیے جو نئے قواعد متعارف کرائے جا رہے ہیں، ان قوانین کے تحت، درخواست دہندگان کے لیے ضروری ہو گا کہ ان کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہ ہو، انگریزی زبان پر کم از کم اے لیول کے معیار کی مہارت ہو، اور ان پر برطانیہ میں کوئی قرضہ بھی نہ ہو۔ مزید برآں، یہ نئے قوانین نہ صرف نئے آنے والوں پر، بلکہ برطانیہ میں پہلے سے موجود افراد پر بھی لاگو ہوں گے۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ وہ برطانیہ کے موجودہ امیگریشن نظام کو منصفانہ اور انضمام پر مبنی نظام میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں، تاکہ اس نظام کے ذریعے برطانیہ آنے والے افراد کی بہتر انداز میں حمایت کی جا سکے۔ شابانہ محمود نے اپنی ذاتی مثال بھی دی اور کہا کہ ان کے والدین بھی ایک بہتر زندگی کے لیے برطانیہ آئے تھے اور آج وہ مقامی شہری بن چکے ہیں۔

نئی امیگریشن پالیسی کا مقصد برطانیہ کے معاشی اور سماجی نظام میں مثبت تبدیلی لانا ہے، جس سے غیر ملکی ورک فورس کو بہتر طریقے سے ضم کیا جا سکے گا اور عوامی خدمات پر دباؤ کم کیا جائے گا۔

Read Comments