ایس پی چوہدری اسلم اور رحمان ڈکیت، بالی وڈ فلم کا ٹریلر ریلیز
بالی وڈ کی نئی فلم ’دُھراندھر’ کا ٹریلر جاری کر دیا گیا ہے، جس میں بھارتی سپر اسٹار سنجے دت ایس پی چوہدری اسلم کے روپ میں دکھائی دیں گے۔
بالی وڈ کی نئی فلم ’دُھراندھر’ کا ٹریلر منگل کو ریلیز کیا گیا ہے، جس میں سنجے دت کے علاوہ اکشے کھنہ، رنویر سنگھ اور ارجن رام پال ایکشن سے بھرپور کرداروں میں نظر آئیں گے جب کہ ادتیہ دھر فلم کے ہدایت کار اور رائٹر ہیں۔
دنیا بھر میں بننے والی تمام فلموں کے ریویو اور ان کی ریٹنگ سے متعلق معتبر پلیٹ فارم آئی ایم ڈی بی کے مطابق فلم دُھراندھر ایکشن فلم ہے جو بھارتی حب الوطنی کے پس منظر میں انڈر ورلڈ کے سخت جرائم پیشہ ماحول اور حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے۔
فلم سازوں نے اگرچہ باضابطہ طور پر یہ اعلان نہیں کیا کہ کہانی براہِ راست چوہدری اسلم کی زندگی پر مبنی ہے، مگر سنجے دت کے کردار اور فلم کے ٹریلر کی ٹون سے یہ تعلق نمایاں ہوتا ہے۔
چوہدری اسلم اپنی بہادری، کراچی میں دہشت گردی اور گینگ وار کے خلاف کارروائیوں، اور اپنے بے خوف لہجے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ فلم میں سنجے دت کا کردار بھی اسی سخت مزاج، غیر روایتی پولیس افسر کی طرز پر بنایا گیا ہے جو نظام کی کمزوریوں کو جانتے ہوئے اپنے انداز میں جنگ لڑتا ہے۔
اسی طرح اکشے کھنہ کا کردار ایک ذہین، پُر اسرار اور انتہائی خطرناک مجرم کے طور پر دکھایا گیا ہے، ان کا کردار رحمان ڈکیت کے نام سے پیش کیا گیا ہے، جو ایک ایسا مجرم ہے جو صرف طاقت یا تشدد پر نہیں چلتا بلکہ ذہانت، منصوبہ بندی اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے اپنے مخالفین کا سامنا کرتا ہے۔
اس فلم کی کہانی کا ایک اور اہم کردار رنویر سنگھ ہے، جسے خفیہ ایجنٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو انتہائی پرخطر مشن پر کام کر رہا ہے۔
اس فلم میں کراچی کے مشہورِ زمانہ رحمان ڈکیت اور ایس پی چوہدری اسلم کے کردار دکھائے گئے لیکن بالی وڈ کی ماضی کی فلموں کی طرح اس فلم کا ٹریلر بھی بہ ظاہر پاکستان مخالف ہی لگتا ہے۔
یہ فلم رواں برس 5 دسمبر کو ریلیز ہوگی جس کے بعد ہی فلم کی کہانی مکمل طور پر واضح ہوگی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان میں چوہدری اسلم خان کی زندگی پر مبنی فلم ”چوہدری“ بنائی گئی تھی۔ یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جو کسی پولیس افسر کی حقیقی زندگی پر مبنی تھی۔ اس فلم میں چوہدری اسلم کا کردار پولیس افسر طارق اسلام نے نبھایا۔
مذکورہ فلم کی ہدایات عظیم سجاد نے دی تھی جبکہ کہانی ذیشان جنید نے لکھی اور اسے نیہا لاج نے پروڈیوس کیا تھا۔ فلم میں شمعون عباسی، ارباز خان، عدنان شاہ ٹیپو، زارا عابد، اصفر مانی اور ثنا فخر نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ فلم ’چوہدری‘ میں پولیس کے سابق افسر کی زندگی اور موت کو دکھایا گیا تھا۔
چوہدری اسلم کون تھے؟
چوہدری اسلم 1964 میں ضلع مانسہرہ کی تحصیل ڈھڈیال میں پیدا ہوئے تھے۔ 31 اکتوبر 1984 میں وہ سندھ ریزرو پولیس کے ایگل سکواڈ میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ کراچی کی ریگولر پولیس فورس کا حصہ بن گئے۔ وہ 80 کی دہائی میں ایک جونیئر افسر سے ترقی کرتے کرتے وہ ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچے تھے۔
چوہدری اسلم کو ہمیشہ میڈیا پر دبنگ الفاظ میں للکارتے دیکھا گیا، وہ ہمیشہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور ہاتھ میں پسٹل تھامے چھاتی تان کر چلتے تھے۔
1992 میں جب کراچی کی صورتحال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ ہرطرف خوف اور دہشت کا راج تھا۔ ان حالات پر قابو پانے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ شہر بھر میں آپریشن کلین آپ کیا جائے۔ چنانچہ انھیں اس وقت کے کراچی کے سب سے خطرناک تھانے گلبہار میں بطور ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔ دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشنز کے دوران گرفتاریاں، چھاپوں سے انھیں شہرت ملی تھی۔
چوہدری اسلم جنوری 2014 میں کراچی میں ایک خود کش حملے میں شہید ہوئے۔ اس سے قبل 2011 میں بھی ان کے گھر پر خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ اور ان کے اہلِ خانہ محفوظ رہے تھے، البتہ اس حملے میں چھ پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے۔ اس حملے کو چوہدری اسلم نے دہشت گردوں کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا تھا۔
پاکستان میں فوجی عدالتیں قائم ہونے کے بعد 2016 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چار ملزمان کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ بلکہ پورے ملک میں چوہدری اسلم کی پہچان اس لیے بھی بنی کہ انھوں نے ہائی پروفائل کیسز کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ان کیسز کو انجام تک بھی پہنچایا۔ صولت مرزا کیس ہو یا شعیب خان یا رحمان ڈکیت کا خاتمہ۔ یا پھر شدت پسند طالبان کے خلاف کارروائیاں، ہر طرف چوہدری اسلم کا ڈنکا بجتا تھا۔
رحمان ڈکیت کون تھا؟
18 جون 2006 کو کوئٹہ سے ’زندہ حالت‘ میں اپنی آخری گرفتاری کے بعد رحمان بلوچ نے تفتیشی حکام کے سامنے اپنی ماں کو قتل کرنے سمیت 79 وارداتوں میں ملوث ہونے کے سنسنی خیز انکشافات کیے تھے۔
بی بی سی کے مطابق رحمان ڈکیت سے متعلق موصولہ تفتیشی رپورٹ انتہائی خفیہ سرکاری دستاویز تھی جو صرف ان کے جرائم ہی ظاہر نہیں کرتی بلکہ سیاست اور جرم کے گھناؤنے تعلق سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔
رپورٹ میں 13 برس کی عمر سے جرائم کا آغاز کر کے ’انڈر ورلڈ ڈان‘ بن جانے والے رحمان بلوچ کے صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان، قوم پرست تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور ممتاز و معروف تجارتی و کاروباری شخصیات سے تعلقات کا ذکر شامل تھا اور قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، منشیات کے دھندے کی تفصیل بھی۔
بی بی سی کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق عبدالرحمان (یا رحمان ڈکیت) کی پیدائش 1976 میں داد محمد عرف دادل کے گھر ہوئی۔ رحمان کے والد کا تعلق ایران کے صوبے سیستان کے بلوچ اکثریتی حصے آشار اور والدہ کا تعلق سرباز سے تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ’دادل اور اُس کا بھائی شیرو دونوں ہی منشیات کے دھندے سے وابستہ تھے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق شیرو ’ہسٹری شیٹر‘ (پرانے اور عادی جرائم پیشہ) بھی تھا۔
رحمان ڈکیت نے 18 مئی 1995 کو تھانہ کلاکوٹ کی حدود میں اپنی والدہ خدیجہ بی بی کو بھی قتل کیا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو اپنے ہی گھر میں ’پستول سے گولی مار کر اس لیے قتل کیا کہ اُسے شبہ تھا کہ والدہ پولیس کی مخبر بن چکی ہیں۔‘
بی بی سی کے مطابق 1995 میں رینجرز نے رحمان اور اس کے ساتھیوں علی ایرانی اور حنیف کو ناجائز اسلحہ اور منشیات رکھنے کے الزام میں گولیمار سے گرفتار کیا۔ دو ہفتے بعد انھیں اورنگی ٹاؤن پولیس کے حوالے کیا گیا۔ اس مقدمے میں رحمان ڈھائی سال تک جیل میں ’بی کلاس‘ قیدی رہا۔
10 جون 1997 کو رحمان بلوچ کو کراچی سینٹرل جیل سے لیاری کے قریب ہی واقع سٹی کورٹ لایا گیا۔ یہاں دو پولیس اہلکار اے ایس آئی انتظار حسین اور کانسٹیبل نثار احمد جو رحمان کی نگرانی پر مامور تھے، وہ ان دونوں کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا اور بلوچستان کے علاقے حب جا پہنچا۔
’مفروری‘ کے دوران رحمان ڈکیت کئی بار کراچی بھی آیا اور منشیات کا دھندہ بھی منظم کرتا رہا۔ 2008 میں رحمان نے ’امن کمیٹی‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ پولیس حکام کے مطابق رحمان نے شہر کے کئی اہم تجارتی علاقوں اور گزرگاہوں کو بھی بھتّے کی کمائی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔
ان دنوں افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی بھی ان علاقوں سے جاتی تھی اور یہ سامان لے جانے والے ہر ٹرک کا مالک یا تو پیسے دیتا تھا یا اسے لوٹ لیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ حب چوکی سے سمگل شدہ ایرانی تیل (پیٹرول) لانے والی گاڑیاں اور آئل ٹینکرز ہوں یا بلوچستان جانے والے ماہی گیر اور کراچی کی فشریز کی ہر لانچ اور ٹرالر سبھی رحمان گینگ کو بھتہ دیتے تھے۔
بی بی سی کے مطابق 18 جون 2006 کو چوہدری اسلم کی سربراہی میں لیاری ٹاسک فورس نے کوئٹہ کے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں رحمان کے خفیہ اڈّے پر اچانک اور بالکل غیر متوقع چھاپہ مارا۔ چھاپے کے دوران گرفتاری سے بچنے کے لیے چھت سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش میں رحمان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ گرفتاری کے بعد رحمان ڈکیت فرار ہو گیا تھا۔
آن ریکارڈ رحمان ’ڈکیت‘ کی ہلاکت کے بارے میں کراچی پولیس کا سرکاری اعلامیہ 10 اگست 2009 کے تمام اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ انگریزی اخباروں ڈان اور دی نیشن نے سرکاری اعلامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ رحمان ڈکیت اپنے تین ساتھیوں سمیت پولیس سے جھڑپ کے دوران مارا گیا۔
سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ پولیس نے رحمان ڈکیت کی گاڑی روکنے کی کوشش کی مگر ملزمان کے فرار ہونے پر پولیس کو مجبوراً گولی چلانی پڑی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’رحمان قتل و اغوا برائے تاوان کی 80 سے زائد وارداتوں میں مطلوب تھا‘ جبکہ کراچی پولیس کے سربراہ وسیم احمد نے بھی صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس کی ہلاکت کراچی پولیس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔