شیخ حسینہ کو سزائے موت پر بنگلہ دیش میں ہنگامے، دیسی ساختہ بم حملے
سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش ایک بار پھر شدید کشیدگی کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے معزول سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو گزشتہ سال طلبہ تحریک کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنائی تو ملک بھر میں احتجاج بھڑک اٹھے۔ اس فیصلے کے بعد ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں عوامی لیگ کے کارکنوں، طلبہ گروپوں اور پولیس کے درمیان شدید تصادم دیکھنے میں آیا۔
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق، ڈھاکا کی متعدد اہم شاہراہیں مظاہرین نے بند کر دیں۔ پولیس کی بھاری نفری پہلے ہی تعینات تھی، لیکن فیصلے کے بعد حالات قابو سے باہر ہوتے گئے۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، ساؤنڈ گرینیڈ اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مظاہرین کا پیچھا کر رہی ہے جبکہ مختلف علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
ڈھاکا کا مشہور علاقہ دھان منڈی 32، جہاں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان اور شیخ حسینہ کا آبائی گھر واقع ہے، سب سے زیادہ کشیدہ رہا۔ مظاہرین نے بلڈوزر کے ساتھ اس گھر کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تاکہ اس پر حملہ کر سکیں، لیکن پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔
صورتحال اُس وقت مزید سنگین ہو گئی جب عوامی لیگ کے کارکنوں کی جھڑپیں جتیا چھاترا شکتی نامی طلبہ تنظیم کے کارکنوں سے شروع ہو گئیں۔ یہ تنظیم اس تحریک کے مرکزی کوآرڈی نیٹرز پر مشتمل ہے جس نے حسینہ حکومت کو گزشتہ سال اقتدار سے بےدخل کیا تھا۔ اسی دوران گوپال گنج کے علاقے کوٹالی پارا میں بدامنی بڑھ گئی۔ نامعلوم افراد نے اپازِلا پریشد پر رات 9 بجے اور تھانے پر 10:30 بجے دیسی ساختہ بم (کاک ٹیل) پھینکے۔ دھماکوں میں تھانے کے تین پولیس اہلکار ایرین نہار، عارف حسین اور نذرالاسلام زخمی ہوئے۔ اسپتال کے مطابق انہیں معمولی زخم آئے اور ابتدائی طبی امداد دے کر فارغ کر دیا گیا۔ ٹریبونل کے فیصلے میں 78 سالہ حسینہ کو تین سنگین الزامات میں مجرم قرار دیا گیا ہے، جن میں تشدد پر اکسانا، مظاہرین کو قتل کرنے کے احکامات دینا اور طلبہ احتجاج کے دوران ہونے والے مظالم کو نہ روکنا شامل ہیں۔ سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کو بھی سزائے موت سنائی گئی، جبکہ سابق پولیس سربراہ چوہدری عبداللہ المامون نے ریاستی گواہ بن کر جرم قبول کیا جس پر انہیں 5 سال قید کی سزا دی گئی۔ یہ فیصلہ آئندہ سال فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل ملکی سیاست کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ شیخ حسینہ نے فیصلے کو ”جانبدار، سیاسی انتقام“ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا کہ ”قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی بھی طاقت قانون سے بالاتر نہیں۔“ فیصلے کے بعد بنگلہ دیش نے بھارت کو خط لکھ کر حسینہ اور ان کے ساتھی کمال کو واپس بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا، جن پر طلبہ قتل عام میں کردار کا الزام ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور ”بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفاد“ کے لیے ہر فریق سے رابطے میں رہے گی۔