شیخ حسینہ کو سزا کے خلاف اپیل کا موقع نہ دیے جانے کا امکان کیوں ہے؟
بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف دائر انسانی حقوق کے مقدمے میں پراسیکیوٹر غازی منور نے واضح کیا ہے کہ اگر شیخ حسینہ اور اسدالزمان کو سزا دی گئی تو وہ اس کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مفرور ہیں۔ غازی منور نے واضح کیا کہ ٹربیونل قانون کے مطابق اپیل کا حق صرف فیصلے کے 30 دن کے اندر موجود ہوتا ہے، اور اس کے لیے مجرم کو خود کو عدالت کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کر لیتے ہیں تو تب انہیں اپیل کا حق حاصل ہوگا۔
ایک صحافی نے پراسیکیوٹر غازی منور سے پوچھا کہ چونکہ مرکزی ملزمہ ایک خاتون ہیں، کیا انہیں قانونی مراعات حاصل ہوں گی؟ اس پر غازی منور نے بتایا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت خواتین، بیمار، نابالغ لڑکے اور بچے ضمانت میں ترجیح حاصل کر سکتے ہیں، لیکن سزا سنائے جانے میں خواتین کے لیے کوئی علیحدہ مراعات نہیں ہیں۔ جرم کی سنگینی کے مطابق سزا دی جائے گی، اور اگر الزامات ثابت نہ ہوئے تو ملزمہ کو بری کر دیا جائے گا۔
’پرواہ نہیں، اللہ نے زندگی دی ہے وہی واپس لے گا‘: شیخ حسینہ کا فیصلے سے پہلے پیغام
صحافی نے شیخ حسینہ کے حالیہ انٹرویوز کے بارے میں بھی سوال کیا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے براہ راست قتل کے احکامات نہیں دیے۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شیخ حسینہ اپنی تمام باتیں صرف ٹربیونل میں حاضری کے دوران پیش کر سکتی ہیں۔ عدالت کے باہر دی گئی بیانات کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہوتی۔ عدالت میں ان کی آواز کی ریکارڈنگز چلائی گئی ہیں، جن میں وہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے احکامات دیتے ہوئے سنی گئی ہیں۔ 1400 قتل: شیخ حسینہ کی سزائے موت پر فیصلہ آج سنایا جائے گا غازی منور نے مزید کہا کہ شیخ حسینہ کے بھارت میں رہتے ہوئے میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز پر پراسیکوشن کوئی قانونی اقدام نہیں کر رہی، یہ معاملہ حکومت اور سفارتی سطح پر دیکھنے کا ہے۔ پراسیکوشن ان کے بیانات کو عدالت میں نہیں لے رہی۔