شائع 15 نومبر 2025 12:06pm

سینیٹری پیڈز میں پھپھوندی لگنے کا دعویٰ، حقیقت کیا ہے؟

حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیینیٹری پیڈز میں پھپھوندی لگ سکتی ہے۔ ویڈیو میں لوگ پیڈ کو روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں اور وسط میں سیاہ دھبے دکھا کر اسے پھپھوندی قرار دے رہے ہیں۔

تاہم، ماہرامراض خواتین نے اس دعوے کی تصدیق کی اور کہا کہ اصل مسئلہ پیڈ میں پھپھوندی نہیں، بلکہ اس کی صحیح اسٹوریج اور استعمال میں ہے۔

دوران حمل پیراسیٹامول کا استعمال بچوں کو ذہنی مریض بناتا ہے؟

خواتین کی زندگی میں ماہواری کے دوران صفائی اور سہولت کے میدان میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ پہلے غیر معیاری اور غیر حفظان صحت مصنوعات استعمال کرنے کے باعث خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، مگر آج سینٹری پیڈز، ٹیمپونز، مینسٹروئل کپ، پیریڈ پینٹیز اور ری یوز ایبل پیڈز کی بدولت انہیں لیکیج یا انفیکشن کے خوف کے بغیر آسان اور محفوظ اختیارات دستیاب ہیں۔ اس سے خواتین اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق آسانی سے انتخاب کر سکتی ہیں۔

ڈاکٹر سونالی جین، چیف، لیبارٹری میڈیسن، کیلش ہسپتال، نوئیڈا، کے مطابق روشنی میں دکھائی دینے والے سیاہ دھبے پھپھوندی نہیں بلکہ پیڈ کے جذب کرنے والے مواد کی گٹھلیاں ہوتی ہیں، جو سیلولوز اور سپرایبسوربینٹ پولیمرز سے بنی ہوتی ہیں۔ یہ مواد نمی کو جذب کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور کبھی کبھار یہ گٹھلیاں بن جاتی ہیں، جس سے پیڈ لومی سا دکھائی دیتا ہے۔

ان کے مطابق یہ مصنوعات صاف ستھری اور درجہ حرارت کنٹرول شدہ ماحول میں جدید مشینری کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں، جہاں انسانی رابطہ بہت کم ہوتا ہے۔ ہر بیچ کو سیل کرنے سے پہلے سخت مائیکرو بائیل ٹیسٹنگ سے گزارا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ خریداری کے بعد پیدا ہوتا ہے، جب پیڈز کو نم یا مرطوب جگہوں پر رکھا جائے، جیسے باتھ روم کی کیبنٹس یا پانی کے قریب۔ اس سے پیکجنگ کے اندر نمی پھنس سکتی ہے خاص طور پر مون سون کے موسم میں فنگس کی افزائش تیز ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر جین کا مشورہ ہے کہ خواتین پیڈز کو ہمیشہ خشک، ٹھنڈی جگہ پر رکھیں، دھوپ اور نمی سے دور رکھیں اور استعمال سے پہلے پیکجنگ اور ایکسپائری ڈیٹ چیک کریں۔

اگر پیڈ کا رنگ بدل گیا ہو یا اس سے بدبو آ رہی ہو تو فوراً اسے استعمال نہ کریں۔

کیا دوران حمل ناریل کا پانی پینے سے بچے کے رنگ پر فرق پڑتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹی گٹھلیاں محفوظ ہیں یا نہیں۔ گائناکولوجسٹ کے مطابق، یہ چھوٹی گٹھلیاں پیڈ کی جذب کرنے والی پرت میں شامل ہوتی ہیں اور اگر پیڈز کو صحیح طریقے سے محفوظ کیا جائے اور استعمال سے پہلے ختمی تاریخ کے اندر استعمال کیا جائے تو یہ عام طور پر محفوظ ہیں۔

ڈاکٹر سونالی جین نے مزید کہا کہ یہ وہی مواد ہیں جو ہسپتال کے ڈریسنگ اور زخم کی دیکھ بھال کرنے والی مصنوعات میں استعمال ہوتے ہیں۔ اصل خطرہ یہ نہیں کہ پیڈ میں گٹھلیاں ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ایک ہی پیڈ کو بہت لمبے وقت تک استعمال کیا جائے، کیونکہ مواد کی وجہ سے نہیں بلکہ زیادہ دیر تک نمی رہنے سے بیکٹیریا اور فنگس کی نشوونما ممکن ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ سن 1888 میں انگلینڈ میں پہلی ڈسپوزایبل سیینیٹری پیڈز متعارف کروائے گئے، جس نے صفائی کے شعبے میں خاص طور پر خواتین کے لیے انقلاب برپا کر دیا۔

اس سے قبل صدیوں تک خواتین نے متبادل طریقے استعمال کیے، جیسے کہ کائی، پیپرس، دھو کر دوبارہ استعمال ہونے والے کاٹن کے کپڑے اور ٹکڑوں سے بنے پیڈز ، یہاں تک کہ ریت کے تھیلے، تاکہ ان کے کپڑے گندے نہ ہوں۔ یہ اختراع خواتین کی زندگی میں سہولت اور تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوئی۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ کسی بھی انفلوئنسر کے دعوے پر یقین نہ کریں جو کہہ رہا ہو کہ پیڈز غیر محفوظ ہیں، کیونکہ مینوفیکچررز سخت سیفٹی گائیڈ لائنز کے مطابق پیڈز تیار کرتے ہیں۔

Read Comments