شائع 15 نومبر 2025 09:50am

غزہ میں حماس خاموشی سے پھر سرگرم

غزہ میں جنگ بندی کے بعد حماس نے دوبارہ اپنا انتظامی اور عملی کنٹرول مضبوطی سے قائم کرنا شروع کر دیا ہے، جہاں رہائشیوں کے مطابق گروپ سامان کی آمد، قیمتوں اور مختلف فیسوں پر سخت نگرانی کر رہا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکا کے تحت غزہ کے مستقبل کا منصوبہ سست روی کا شکار ہے اور عالمی طاقتیں ابھی تک نئی عبوری حکومت کے طریقہ کار پر متفق نہیں ہو سکیں۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے بعد حماس خاموشی سے نہ صرف اپنے سابقہ علاقوں پر کنٹرول دوبارہ قائم کر رہی ہے بلکہ انتظامی امور کو وسعت بھی دے رہی ہے، جس نے مخالفین کے اس شک کو مزید تقویت دی ہے کہ حماس وعدے کے مطابق حکومت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

غزہ کے متعدد رہائشیوں نے بتایا کہ حماس اہلکار اشیا کی آمد پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بعض درآمدی اشیا—جیسے فیول اور سگریٹس، پر مبینہ طور پر فیس بھی لی جا رہی ہے، جبکہ دکان داروں کو زائد قیمتیں وصول کرنے پر جرمانے کیے جا رہے ہیں۔

تاہم حماس حکومت کے میڈیا آفس کے سربراہ اسماعیل الثوابۃ نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سگریٹس یا فیول پر کسی قسم کی نئی ٹیکس پالیسی نافذ نہیں کی گئی۔

ان کے مطابق حماس صرف بنیادی انسانی اور انتظامی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس نئی ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے لیے تیار ہے اور کسی قسم کے انتشار سے بچنا چاہتی ہے۔

غزہ کے ایک مال کے مالک حاتم ابو دلال کا کہنا تھا کہ قیمتیں بلند ہیں کیونکہ سامان کم آرہا ہے، جبکہ سرکاری نمائندے مارکیٹ میں چکر لگا کر نرخ مقرر کرتے ہیں۔

غزہ میں اجتماعی قبر سے 51 فلسطینیوں کی لاشیں برآمد

نصیرات کے علاقے میں خریداری کرتے محمد خلیفہ نے کہا کہ قیمتیں مسلسل بدل رہی ہیں، ’’یہ اسٹاک مارکیٹ کی طرح لگتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق لوگوں کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے اور حالات انتہائی سخت ہیں۔

امریکی منصوبہ اور رکاوٹیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق منصوبے کے تحت جنگ بندی 10 اکتوبر کو ہوئی تھی، جس کے ساتھ ہی آخری زندہ یرغمالیوں کی رہائی بھی عمل میں آئی۔

منصوبہ ایک عبوری حکومت کے قیام، بین الاقوامی فورس کی تعیناتی، حماس کی غیر مسلحیت اور تعمیرِ نو کے آغاز پر مشتمل ہے۔

تاہم رائٹرز نے متعدد ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ منصوبے پر پیش رفت سست ہے اور غزہ کی عملی تقسیم کا خدشہ بڑھ رہا ہے، کیونکہ اسرائیلی فوج اب بھی نصف سے زیادہ علاقے میں موجود ہے۔

غزہ امن معاہدہ ٹوٹنے کا امکان، خفیہ امریکی رپورٹ میں انکشاف

غزہ کی دو ملین آبادی میں سے تقریباً تمام لوگ ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں حماس کا کنٹرول برقرار ہے۔ گروپ نے 2007 میں فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی فتح تحریک کو ہٹا کر غزہ کا نظام سنبھالا تھا۔

تجزیہ کار غیث العمری کے مطابق حماس کا بڑھتا ہوا اثر واضح پیغام ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’’جتنا زیادہ عالمی برادری انتظار کرے گی، حماس اتنی ہی مضبوط ہوگی۔‘‘

امریکا کا مؤقف

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ حماس غزہ کی حکمرانی نہیں کر سکتی اور نہ کرے گی‘‘۔ ترجمان کے مطابق اقوام متحدہ کی منظوری کے فوراً بعد نئی حکومت بنائی جائے گی اور ملٹی نیشنل فورس کی تشکیل میں پیش رفت ہو رہی ہے۔

غزہ جنگ کے دو سال مکمل، اسرائیلی جارحیت سے 67 ہزار فلسطینی شہید، شہر ملبے میں تبدیل

فلسطینی اتھارٹی غزہ کی نئی حکومت میں کردار کی خواہش مند ہے، مگر اسرائیل اسے قبول کرنے پر تیار نہیں۔ دوسری جانب فتح کے ترجمان مندر الہائک کے مطابق حماس کا موجودہ طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں۔

زمینی حقائق اور مشکلات

غزہ میں امداد کی مقدار ضرور بڑھی ہے، لیکن حالات اب بھی سخت ہیں۔ ایک بڑے فوڈ امپورٹر نے بتایا کہ حماس مکمل ٹیکس نظام تو نہیں چلا رہی مگر وہ ’’ہر چیز ریکارڈ کرتی ہے‘‘۔ ان کے مطابق راستوں پر چیک پوسٹیں موجود ہیں اور ٹرکوں کو روکا جا کر پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

حماس جنگ سے پہلے 50 ہزار کے قریب ملازمین کو تنخواہیں دیتی تھی، جن میں پولیس بھی شامل تھی۔ ہزاروں اہلکار جنگ میں مارے گئے، جبکہ باقی کارکن نئی انتظامیہ کے تحت بھی کام جاری رکھنے کو تیار ہیں۔

حماس نے دورانِ جنگ بھی ملازمین کو تنخواہیں دیں—اگرچہ بالائی تنخواہیں کاٹ کر تمام ملازمین کی تنخواہ 1500 شیکلز ماہانہ کر دی گئی۔

کون سے ممالک کی افواج غزہ میں رہیں گی، فیصلہ اسرائیل کرے گا: نیتن یاہو

ذرائع کے مطابق حماس نے جنگ میں مارے جانے والے چار علاقائی گورنروں کی جگہ نئے گورنر مقرر کیے، جبکہ اس کے 11 پولٹ بیورو اراکین کی جگہ بھی نئے افراد لائے گئے۔

غزہ کے سرگرم کارکن مصطفیٰ ابراہیم کا کہنا ہے کہ حماس عالمی منصوبے میں تاخیر کا فائدہ اٹھا کر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کر رہی ہے۔ ان کے مطابق: ’’یہ سلسلہ اسی وقت رکے گا جب کوئی متبادل حکومت تشکیل پا جائے۔‘‘

Read Comments