امتحان کی حساسیت کے باعث حکومت نے ملک بھر میں خصوصی انتظامات کیے۔ خاص طور پر انگلش لسننگ ٹیسٹ کے 35 منٹ کے دوران تمام پروازیں عارضی طور پر معطل رہیں تاکہ کوئی شور طلبہ کی توجہ نہ بھٹکا سکے۔ وزارتِ اراضی کے مطابق 140 پروازوں کا شیڈول تبدیل کیا گیا، جن میں 75 بین الاقوامی پروازیں بھی شامل ہیں۔
بینکوں اور سرکاری دفاتر نے بھی اپنے اوقات کار ایک گھنٹہ آگے بڑھا دیے تاکہ سڑکوں پر رش کم ہو اور طلبہ با آسانی امتحانی مراکز پہنچ سکیں۔ سیئول سمیت مختلف شہروں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی اور ہر سال کی طرح اس بار بھی پولیس اہلکار دیر سے پہنچنے والے طلبہ کو تیزی سے امتحانی ہالز تک پہنچاتے دکھائی دیے۔
سیئول کے یونگسان ہائی اسکول کے باہر میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جب کہ اسکول کے جونیئر طلبہ اپنے سینیئرز کی حوصلہ افزائی کے لیے بینرز اٹھائے نعرے لگا رہے تھے: ”سنیونگ میں 100 نمبر لاؤ!“
16 سالہ کانگ ڈونگ وو نے کہا کہ وہ اپنے سینیئرز کی حوصلہ افزائی کے لیے آیا ہے اور اس ماحول کو دیکھ کر اسے بھی مزید محنت کی ترغیب ملتی ہے تاکہ وہ آئندہ برسوں میں سنیونگ کی اچھی تیاری کر سکے۔
امتحان دینے والے طلبہ میں سے ایک 18 سالہ کم من جے نے بتایا کہ وہ گھبراہٹ کا شکار ہے لیکن اچھی تیاری کی وجہ سے پُراعتماد بھی ہے۔ ان کے مطابق ان کے والدین ان سے کہیں زیادہ پریشان ہیں اور گھر سے نکلنے سے پہلے بار بار ہر چیز چیک کرتے رہے۔
جنوبی کوریا میں امتحان کے دن صرف انتظامی اقدامات ہی نہیں بلکہ روایات بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ بہت سے والدین مندروں اور عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں اور بچے امتحان سے پہلے وہ کھانے بھی نہیں کھاتے جنہیں بدقسمتی سے جوڑا جاتا ہے، جیسے سی ویڈ سوپ۔
اس سال ایک نیا پہلو یہ بھی شامل ہوا ہے کہ ملک کی تمام چار سالہ یونیورسٹیاں طلبہ کے اسکول میں تشدد یا بدمعاشی کے ریکارڈ کو بھی داخلے کا لازمی حصہ بنائیں گی۔ پہلے یہ اختیاری تھا لیکن اب داخلے کے فیصلے میں اس ریکارڈ کی حیثیت لازمی ہوگی۔
سخت دباؤ کے باوجود طلبہ اپنی بھرپور کوششوں کے ساتھ امتحان میں شریک ہوئے، جب کہ خاندانوں اور کمیونٹی کی جانب سے ملنے والا ساتھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جنوبی کوریا میں ’سنیونگ‘ صرف ایک امتحان نہیں بلکہ ایک قومی واقعہ بن چکا ہے۔