شائع 13 نومبر 2025 02:07pm

’آؤ، امریکیوں کو تربیت دو اور واپس جاؤ‘: ٹرمپ کی نئی ویزا پالیسی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نئے ایچ بی ون ویزا منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت غیر ملکی ماہر کارکنوں کو امریکا میں عارضی طور پر لایا جائے گا تاکہ وہ امریکی شہریوں کو اعلیٰ مہارت والے شعبوں میں تربیت دے سکیں۔ اس کے بعد یہ غیر ملکی کارکن واپس اپنے ممالک کو چلے جائیں گے، اور امریکا میں ان کاموں کو مکمل طور پر مقامی کارکنوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔

ٹرمپ کے اس منصوبے کی تفصیل دیتے ہوئے امریکی خزانہ کے سیکرٹری اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ یہ نیا طریقہ کار امریکی معیشت میں ضروری تبدیلیوں کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام امریکی صنعتوں میں مہارت کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے، تاکہ امریکہ دوبارہ اپنی اہم صنعتوں، جیسے کہ سیمی کنڈکٹرز اور دیگر ہائی ٹیک مصنوعات کی پیداوار کو داخلی طور پر بڑھا سکے۔

نیا منصوبہ: ہنر کی منتقلی

بیسنٹ نے فاکس نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد صرف غیر ملکی ماہرین کو امریکا لانا نہیں، بلکہ ان سے امریکی ورک فورس کو تربیت دلوانا ہے تاکہ یہ کارکن مستقبل میں ان شعبوں میں کام کر سکیں۔ بیسنٹ نے یہ بھی وضاحت دی کہ امریکا میں کئی دہائیوں سے مینوفیکچرنگ کی صنعت کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا جا چکا ہے، اور اب اسے دوبارہ واپس لانا ایک مشکل عمل ہے۔ تاہم، اس علم کی منتقلی کے ذریعے امریکا کو فائدہ پہنچایا جائے گا اور اس کی معیشت کو مستحکم کیا جائے گا۔

اس منصوبے میں غیر ملکی ماہرین کو تین، پانچ یا سات سال کے لیے امریکا میں رکھا جائے گا، اور ان سالوں میں وہ امریکی کارکنوں کو جدید ٹیکنالوجیز اور ہنر سکھائیں گے۔ اس کے بعد یہ غیر ملکی ماہرین اپنے ملک واپس چلے جائیں گے، اور امریکی کارکن ان کی جگہ لے لیں گے۔ بیسنٹ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ منصوبہ امریکی کارکنوں کو مختلف شعبوں میں کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے بنایا گیا ہے، اور اس سے انہیں عالمی معیار کی مہارت حاصل ہو گی۔

امریکی صنعتوں کی بحالی

ٹرمپ کے مطابق، امریکا کو اپنی صنعتوں کو واپس لانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز جیسے اہم شعبوں میں، تاکہ امریکہ عالمی سطح پر دوبارہ مسابقتی بن سکے۔ انہوں نے کہا کہ، ”پچھلے 20 سے 30 سالوں میں امریکہ نے درست سمت میں اقدامات نہیں کیے، اور ہمیں اب اپنے اہم شعبوں کو واپس لانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔“

غیر ملکی کارکنوں کے حوالے سے تحفظات

کچھ افراد یہ تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ غیر ملکی کارکن امریکیوں کی نوکریاں چھین سکتے ہیں، لیکن بیسنٹ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ابھی تک امریکی کارکنوں کے پاس وہ مہارت نہیں ہے جو ہمیں چاہیے، لیکن یہ نیا منصوبہ انہیں وہ مہارت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ غیر ملکی ماہرین صرف عارضی طور پر امریکا آئیں گے، اور ان کی موجودگی کا مقصد امریکی ورک فورس کی صلاحیت کو بڑھانا ہے، نہ کہ ان کی جگہ لینا۔

ایچ ون بی ویزا فیس: معروف امریکی کاروباری گروپ نے ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ کر دیا

اس کے ساتھ ہی بیسنٹ نے امریکی حکومت کے دیگر اقتصادی اقدامات پر بھی روشنی ڈالی، خاص طور پر ایک ممکنہ 2,000 ڈالر کی ٹریفک ریبیٹ پر، جو وہ امریکی خاندانوں کو دیں گے جو سالانہ ایک لاکھ ڈالر تک کماتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ریبیٹ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکی عوام کو تجارتی پالیسیوں کے فوائد کا براہ راست فائدہ پہنچے۔

ٹرمپ کا وژن

ٹرمپ انتظامیہ کا یہ نیا منصوبہ ”پیرالل پروسپیرٹی“ کے نظریے پر مبنی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کی معیشت کے تمام شعبے، چاہے وہ وال اسٹریٹ ہو یا مین اسٹریٹ، ایک ساتھ ترقی کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکا کی خزانہ مارکیٹ مستحکم اور گہری ہو تاکہ اقتصادی ترقی کو دوام مل سکے۔

ٹرمپ کی اس پالیسی کے تحت، امریکا کے اہم شعبوں کی بحالی اور غیر ملکی کارکنوں کی تربیت کے ذریعے امریکی ورک فورس کو مضبوط بنانا ایک مرکزی مقصد ہے۔ ان کے بقول، ”غیر ملکی ماہرین آ کر امریکیوں کو سکھائیں گے، اور پھر واپس چلے جائیں گے، جس سے امریکا کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔“

ٹرمپ کے بیانات امیگریشن اور محنت کشوں کے بارے میں ایک متضاد نقطۂ نظر کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکا میں محنت کشوں کے پاس کچھ مہارتیں نہیں ہیں، اور اس لیے غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملک میں لانا ضروری ہے۔ لیکن دوسری طرف، وہ ان غیر ملکی محنت کشوں کے کردار کو بھی تسلیم کرتے ہیں، جو ملک کی معیشت اور ٹیکنالوجی میں اہم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پالیسی میں کچھ تضادات ہیں، جو سیاست کے بدلتے ماحول میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں اور اس پر مزید بحث یا مسائل اٹھ سکتے ہیں۔

Read Comments