27ویں ترمیم کا نیا متن سینیٹ سے منظور، منحرف سیف اللہ ابڑو اور احمد خان نے بھی ووٹ دیا
آئین میں بڑی تبدیلیوں پر مشتمل 27ویں آئینی ترمیم کا نیا متن سینیٹ میں منظور کرلیا گیا ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ستائیسویں ترمیم کا نیا متن منظوری کے لیے ایوان بالا پیش کیا۔ جس کے بعد سینیٹ میں آئینی ترمیم کی مختلف شقوں پر ووٹنگ ہوئی، جس میں اکثریت نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
27ویں ترمیم کے نئے متن میں شامل شق نمبر 2، 3، 4، 19، 22 اور 51 کے حق میں 64 ووٹ آئے جبکہ 4 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
سیف اللہ ابڑو اور احمد خان نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے چار سینیٹرز نے بل کی مخالفت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے منحرف سینیٹرز سیف اللہ ابڑو اور احمد خان آج بھی ووٹ کے لیے اہل تھے، کیونکہ دونوں کے استعفے تاحال منظور نہیں کیے گئے اور نہ ہی تاحال آرٹیکل تریسٹھ کے تحت کوئی ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے بھی واضح کیا ہے کہ کسی رکن کا زبانی استعفیٰ مستند نہیں ہوتا اور کسی نے ابھی تک انہیں باقاعدہ استعفیٰ نہیں بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ استعفیٰ دینے کا ایک واضح طریقہ کار موجود ہے اور رکن مستند طریقے سے استعفیٰ دینے کے بعد بھی اپیل کرنے کا حق رکھتا ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک بار زبانی استعفیٰ دیا تھا، لیکن عملاً وہ مستعفی نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح جذبات کے تحت لوگ بات کرتے رہتے ہیں، لیکن قانون اور آئین کے مطابق صرف تحریری اور درست طریقہ سے دیا گیا استعفیٰ قابل قبول ہوتا ہے۔
مزید براں، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پارٹی فلورکراسنگ کے معاملات پر الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا جا سکتا ہے تاکہ قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکے۔
ووٹنگ کے دوران ایوان کا ماحول خاصا گرما گیا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹرز نے چیئرمین ڈائس کے سامنے دھرنا دے دیا اور آئینی ترمیم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ پی ٹی آئی ارکان نے ”آئینی ترمیم نامنظور“ کے نعرے لگائے اور اپوزیشن بنچوں سے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ بعدازاں اسپیکر کی مداخلت پر اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔
’کچھ وضاحتیں ضروری تھیں‘
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پارلیمنٹ میں واضح کیا کہ حالیہ ترامیم کے حوالے سے کچھ وضاحتیں ضروری تھیں، جس وجہ سے مزید ترامیم پیش کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 6 براہِ راست سنگین غداری سے متعلق ہے اور اگر کوئی طاقت استعمال کرکے آئین کو پامال کرتا ہے تو وہ مرتکب فرد کسی عدالت سے توثیق نہیں حاصل کر سکتا۔
اخیال رہے کہ ترمیمی بل گزشتہ روز قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ حکومتی اراکین کی تعداد 234 رہی، جو منظوری کے لیے درکار 224 سے کہیں زیادہ تھی، البتہ جے یو آئی (ف) نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
قومی اسمبلی میں منظور شدہ ترمیم میں 8 نئی شقیں شامل کی گئی ہیں۔ سب سے اہم تبدیلی آئین کے آرٹیکل 6 کی شق 2 میں کی گئی ہے، جس کے تحت ’’سنگین غداری‘‘ کے کسی بھی عمل کو کوئی عدالت جائز قرار نہیں دے سکے گی۔ اسی شق میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ساتھ ’’آئینی عدالت‘‘ کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
ترمیم کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی اپنی مدتِ ملازمت مکمل ہونے تک ’’چیف جسٹس آف پاکستان‘‘ ہی کہلائیں گے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس صاحبان میں سے جو سینئر ترین ہوں گے، وہی آئندہ ’’چیف جسٹس آف پاکستان‘‘ کہلائیں گے۔
اس تبدیلی نے اُس بحث کو ختم کر دیا ہے جو پچھلے چند دنوں سے جاری تھی کہ کیا چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے یا اسے آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے سپرد کیا جا رہا ہے۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔“ ان کے مطابق، جسٹس یحییٰ آفریدی اب بھی سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس محسن اختر کیانی کے دلچسپ ریمارکس
سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں 27ویں ترمیم کی مزید ترامیم کی منظوری کے ساتھ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ممکنہ بند ہونے، زرعی و غذائی سلامتی اتھارٹی بل 2025، اور اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ کی پیشکش بھی شامل ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مالی سال 2024-25 کی رپورٹ پیش کریں گے جس میں ملکی معیشت، مالی پالیسی اور بینک کے اہداف کی تفصیلات شامل ہوں گی، جب کہ وزیر پارلیمانی امور کونسل آف کامن انٹرسٹس کی تین سالہ رپورٹس ایوان میں رکھیں گے۔
ماہرین کے مطابق، آج سینیٹ میں ہونے والی منظوری 27ویں آئینی ترمیم کے عمل کو حتمی شکل دے دے گی، جس کے بعد پاکستان کے عدالتی ڈھانچے اور آئینی نظام میں ایک نیا باب کھل جائے گا۔