’بند کمروں میں فیصلوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی‘، خیبر پختونخوا اسمبلی میں امن جرگہ
خیبر پختونخوا امن جرگے نے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان خارجہ پالیسی میں وفاق، صوبائی حکومت سے مشاورت کریں، امن جرگہ نے وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان تناؤ کم کرنے کا بھی مطالبہ کردیا جب کہ جرگے کے شرکا نے 15 نکات پر مشتمل اعلامیہ کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے شکوہ کیا کہ بند کمروں میں فیصلوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔
بدھ کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں امن جرگہ ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سمیت مختلف جماعتوں کے وفود نے شرکت کی۔
امن جرگے کے شرکا کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا، شرکا کا استقبال اسپیکربابرسلیم سواتی اور اپوزیشن لیڈر ڈاکٹرعباد اللہ نے کیا۔ جرگہ کے شرکاگورنرفیصل کریم کنڈی، سابق گورنرغلام علی کوپولیس نےسلامی پیش کی جبکہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو پولیس کے دستے نے سلامی پیش کی۔
اس کے علاوہ میاں افتخار، سراج الحق، آفتاب شیرپاؤ اور سینیٹرمولاناعطا الرحمان کو بھی گارڈ آف آنرپیش کیا گیا۔
جرگے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سمیت سیاسی قائدین نے خطاب کیا۔ اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے امن جرگہ کا اعلامیہ پڑھا اور کہاکہ امن سے متعلق آج تمام پارٹیاں یک آواز ہیں، تجاویز پررات کو بھی بیٹھےتھےاور آج بھی لائحہ عمل تیار کیا، آپ سب نے ہمارے دست و بازو مضبوط کیے۔
بعدازاں خیبرپختونخوا کے امن جرگے کا 15 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ جرگے نے خیبر پختونخوا میں کسی بھی ملٹری آپریشن سے قبل صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لینے اور وفاق اور صوبائی حکومت کی عملداری کو تمام علاقوں میں یقینی بنانے کا مطالبہ کر دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبے کی داخلی سکیورٹی کےلئے تمام تر زمہ داری پولیس اور سی ٹی ڈی کے حوالے ہو گی جب کہ ضرورت پڑنے پر دیگر اداروں سے معاونت طلب کریں گے، صوبے میں جاری آپریشن اور ان کے قانونی جواز کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کو ان کیمرہ سیشن میں بریفنگ دی جائے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں امن کے لیے عوام ، سیکیورٹی فورسز اور فوج نے قربانیاں دی ہیں اور اس قربانی کی بدولت امن قائم ہوا تھا ۔ اب ایک بار پھر ہمیں صوبے کی امن کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ خیبرپختونخوا سے معدنیات کے نکالنے کے عمل کو بند کیا جائے، صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی صوبائی ایکشن پلان مرتب کرے۔