“شروع میں بہت گھبراہٹ تھی، مگر جیسے جیسے لوگوں کا برتاؤ بہتر ملا، میرا اعتماد بڑھتا گیا،” بہنام نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا۔
ایران میں خواتین کے لیے موٹرسائیکل چلانے پر کوئی باقاعدہ قانون تو نہیں، مگر پولیس کے ضوابط میں لفظ ”مردان“ (مرد) استعمال کیا گیا ہے، جس کے تحت صرف مردوں کو لائسنس جاری کیا جا سکتا ہے۔
تہران کے ٹریفک پولیس چیف جنرل ابوالفضل موسوی پور کے مطابق “یہ ضابطے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ جرم ہے، اور چونکہ کسی خاتون کے پاس موٹرسائیکل لائسنس نہیں، ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔”
ایران میں خواتین پر مختلف سماجی پابندیاں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے رائج ہیں، جن میں حجاب لازمی قرار دیا گیا۔ 2022 میں مہسا امینی کی حراست کے دوران موت کے بعد حجاب قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جس نے خواتین کے حقوق پر بحث کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔
کچھ قدامت پسند علما کے مطابق خاتون کا موٹرسائیکل چلانا “تبرّج” یعنی اپنی زیب و زینت کی نمائش کے مترادف ہے۔سخت گیر رکنِ پارلیمنٹ محمد سراج نے کہا کہ “موٹرسائیکل چلاتی خاتون حجاب کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ مصروف ہوتے ہیں اور وہ ہوا کے سامنے ہوتی ہے۔”
لیکن تہران کی حقیقت کچھ اور ہے۔ شہر میں روزانہ تقریباً 80 لاکھ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں سڑکوں پر ہوتی ہیں۔ خواتین ماضی میں مرد ڈرائیوروں کے پیچھے سائیڈ سیڈل بیٹھا کرتی تھیں، مگر اب کئی خواتین خود بائیک چلاتی ہیں تاکہ ٹریفک فیس اور پارکنگ کے مسائل سے بچ سکیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق میرَت بہنام کہتی ہیں، “میرے لیے یہ کوئی سیاسی عمل نہیں، بس عملی ضرورت تھی۔ میں ہر روز مغربی علاقے ستارخان سے شہر کے وسط میں کیفے تک آتی ہوں، اور ٹریفک نے زندگی مشکل بنا رکھی تھی۔”
دوسری جانب اصلاح پسند حلقے اس مسئلے کو سماجی برابری کا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔
اخبار شرق نے لکھا “وقت آ گیا ہے کہ خواتین پر لگائی گئی غیر مرئی دیواریں گرائی جائیں۔ موٹرسائیکل چلانا خواتین کے لیے صرف سواری نہیں بلکہ آزادی، انتخاب اور سماجی مساوات کی علامت ہے۔”
بہنام کے مطابق انھیں اپنی بائیک چلانے کے دوران پولیس کی جانب سے مثبت رویہ دیکھنے کو ملا۔
“ایک ٹریفک افسر نے مجھے پہلی بار محفوظ محسوس کروایا۔ وہ تنبیہ ضرور کرتے تھے مگر تکنیکی باتوں پر، جیسے کہاں پارک کرنا ہے یا ہیلمٹ لازمی پہننا ہے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ایران میں اب بھی سخت گیر حلقے خواتین کے بائیک چلانے کے مخالف ہیں، مگر تہران کی سڑکوں پر خواتین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سماج کی فضا بتدریج بدل رہی