شائع 12 نومبر 2025 01:12pm

غزہ امن معاہدہ ٹوٹنے کا امکان، خفیہ امریکی رپورٹ میں انکشاف

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے دار غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے ٹوٹنے کے امکانات پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ امریکی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ معاہدے کے کئی اہم نکات پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ہیں اور اس کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں، جس سے معاہدے کے مستقبل پر غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

امریکی اخبار ”پولیٹیکو“ کے مطابق یہ معلومات خصوصی دستاویزات سے حاصل ہوئی ہیں جو گزشتہ ماہ امریکی سینٹ کام اور ”سول-ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر“ کے زیر اہتمام دو روزہ اجلاس میں پیش کی گئیں۔ یہ مرکز جنوبی اسرائیل میں امن معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا، جو 10 اکتوبر 2025 سے نافذ العمل ہے۔

اجلاس میں امریکی سکیورٹی کوآرڈینیٹر برائے اسرائیل و فلسطینی اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فنزل کی سربراہی میں تقریباً 400 شرکاء نے حصہ لیا، جن میں امریکی وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع، غیر سرکاری تنظیموں اور نجی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔

غزہ امن منصوبے کو کن خطرات کا سامنا ہے؟

غزہ امن معاہدہ یا سیاسی مبالغہ؟ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کی تقریر میں کئی متنازع دعوے

دستاویزات میں خاص طور پر یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ غزہ میں ”بین الاقوامی استحکام فورس“ کے قیام کا منصوبہ عملی طور پر ممکن ہے یا نہیں۔ ایک سلائیڈ میں امن منصوبے کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے درمیان سوالیہ نشان دکھایا گیا، جو معاہدے کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال کی علامت ہے۔

امریکی رپورٹوں کے مطابق، حماس جنگ کے بعد دوبارہ علاقے پر کنٹرول قائم کر رہی ہے، اور روزانہ صرف 600 ٹرک امداد پہنچنے کے باعث شدید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

امریکا اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بعد بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس بلانے کی تیاری میں ہے تاکہ تعمیرِ نو اور سکیورٹی کے لیے مالی امداد حاصل کی جا سکے، مگر ابھی واضح ٹائم لائن موجود نہیں۔

دستاویزات میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان غزہ کے انتظام پر اختلافات بھی نمایاں کیے گئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے، مگر اسرائیل اسے قبول نہیں کرتا۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے مطابق فلسطینی اتھارٹی صرف اصلاحات کے بعد اس عمل میں شامل ہو سکتی ہے۔

Read Comments