اپ ڈیٹ 11 نومبر 2025 02:17pm

نسل کشی میں ملوث امریکی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر اب قومی ہیرو کیسے بن گیا؟

انڈونیشیا کے سابق صدر اور طویل عرصے تک حکمران رہنے والے فوجی آمر جنرل سہارتو کو موجودہ صدر پرابوو سوبیانتو نے قومی ہیرو کا خطاب دے دیا ہے۔

انڈونیشیا میں پیر کے روز ایک سرکاری تقریب میں صدر پرابوو سوبیانتو نے سابق صدر جنرل سہارتو کو بعد از مرگ ’قومی ہیرو‘ کے اعزاز سے نوازا۔

اس فیصلے پر ملک بھر میں شدید تنقید کی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اِسے لاکھوں افراد کے قتل کی ’تاریخ مٹانے“ کی کوشش قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور متاثرین کے لواحقین نے کہا ہے کہ یہ اقدام ایک ایسے آمر کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے، جس کے دور میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کا قتل عام ہوا۔

جنرل سہارتو کا دورِ اقتدار

جنرل سہارتو نے 1965 میں انڈونیشیا میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ انہوں نے اس بغاوت کا الزام کمیونسٹوں پر لگایا اور ملک بھر میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس کریک ڈاؤن میں پانچ سے دس لاکھ افراد مارے گئے تھے۔

بعد ازاں امریکی خفیہ دستاویزات میں انکشاف ہوا کہ انڈونیشی فوج کو کمیونسٹ رہنماؤں کی فہرستیں، ساز و سامان اور مالی مدد امریکا کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔

سہارتو نے 31 سال ملک پر حکومت کی۔ ان کے دورِ حکومت میں سیاسی مخالفین پر کریک ڈاؤن جاری رہا، میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں۔ ان کے دور میں اگرچہ تیزی سے معاشی ترقی ہوئی لیکن کرپشن اور دولت کے ارتکاز نے عوامی غصے کو جنم دیا۔ 1998 میں ایشیائی مالیاتی بحران کے دوران عوامی احتجاج کے بعد اُنہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔

جنرل سہارتو کا 2008 میں انتقال ہوا لیکن وہ کبھی عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کے بچوں پر کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے اور 2015 میں سپریم کورٹ نے ان کے خاندان کو ریاستی خزانے سے لوٹی گئی رقوم واپس کرنے کا حکم دیا۔

موجودہ صدر پر الزامات

صدر پرابوو سوبیانتو، جنرل سہارتو کے داماد ہیں اور سابق فوجی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی حکومت کی جانب سے سابق فوجی آمر کو قومی ہیرو قرار دے دیا گیا ہے۔

صدر پرابوو سوبیانتو ماضی میں خود بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کر چکے ہیں، خاص طور پر 1998 کے مظاہروں کے دوران مخالف سیاسی کارکنوں کے اغوا کے واقعات میں ان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔

پرابوو سوبیانتو کے صدر بننے کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا تھا کہ ملک میں دوبارہ فوجی اثرورسوخ بڑھ سکتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں انڈونیشن حکومت نے فوج کو شہری اداروں کے معاملات میں کردار دینے جیسے اقدامات کیے ہیں، جن پر سول سوسائٹی نے سخت اعتراض کیا ہے۔

فیصلے کے حالیہ فیصلے کے خلاف احتجاج

حکومت کے اِس فیصلے کے خلاف دارالحکومت جکارتہ میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جہاں مظاہرین نے بینرز پر ’سہارٹو ہیرو نہیں، قاتل ہے‘ جیسے نعرے لکھ رکھے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس اقدام کو تاریخ کو دوبارہ لکھنےکی کوشش قرار دیا ہے جبکہ ہیومن رائٹس واچ کے محقق آندریاس ہار سونو نے کہا کہ ’سہارتو اور اس کے ساتھیوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لانے کا نتیجہ یہی ہے کہ آج تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔‘

دوسری جانب سہارتو کی بیٹی سیتی ہاردی جانتی رکمانا نے اپنے والد کے دفاع میں کہا، ’ہم شکر گزار ہیں کہ صدر نے ہمارے والد کو قومی ہیرو تسلیم کیا۔ وہ خود بھی فوجی ہیں، اس لیے جانتے ہیں کہ میرے والد نے ملک کے لیے کیا خدمات انجام دیں۔‘

سابق صدر اور فوجی آمر جنرل سہارتو کے حامی انہیں آج بھی ’استحکام اور ترقی‘ کی علامت قرار دیتے ہیں۔

Read Comments