شائع 11 نومبر 2025 12:08pm

’بی جے پی بحران میں؛ مزید ایسے دھماکوں کی توقع ہے‘

نئی دہلی میں موجود لال قلعہ میں ہونے والے حالیہ دھماکے کے بعد بھارت میں سیاسی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ کئی صحافی اور عوامی حلقے اس دھماکے کو بی جے پی حکومت کی انتخابی فالس فلیگ پالیسی قرار دے رہے ہیں۔

بھارتی صحافی شالنی شکلہ نے کہا، ”ہر بار جب بی جے پی بحران میں آتی ہے، دہشتگردی یا بلاسٹ کا نیا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ فوراً پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔“ اسی طرح کانگریس رکن پارلیمنٹ پردیوت بوردولوی نے بھی انکشاف کیا کہ ”یہ سب بہار انتخابات سے پہلے کا ایک متوقع سیاسی اقدام تھا۔“

صحافی روی نیر نے کہا کہ بہار الیکشن کے دوران بی جے پی کمزور پوزیشن میں ہے اور ”مزید ایسے دھماکوں کی توقع ہے“۔

بھارتی شہری بھی سوشل میڈیا پر سوال اٹھا رہے ہیں، ”ہر انتخاب سے پہلے بم دھماکے کیوں ہوتے ہیں؟“

سوشل میڈیا پر ہزاروں صارفین نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے فالس فلیگ آپریشنز کروائے۔ صحافی رویندر کپور اور سربھی ایم نے پٹھان کوٹ، پلوامہ، پہلگام اور لال قلعہ دھماکوں کو بی جے پی حکومت سے جوڑا۔

سابق آر ایس ایس رہنما یشونت شندے کے عدالتی حلفیہ بیان کو دوبارہ زیر بحث لایا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ”سنگھ پریوار نے انتخابی فائدے کے لیے بم دھماکے کروائے“۔

بھارتی اخبار کوسٹل ڈائجسٹ نے بھی تصدیق کی کہ ”سنگھ پریوار ملک بھر میں دھماکے کروا کر بی جے پی کو فائدہ پہنچاتا رہا ہے“۔

صحافی کلکی نے کہا، ”بی جے پی حکومت نے دہلی میں اپنے ہی شہریوں پر بم گرائے تاکہ احتجاج روکے جائیں۔ یہ دہشتگردی ہے“۔

عوامی حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ امت شاہ کے وزیر داخلہ بننے کے بعد ہر بڑا حملہ بی جے پی کے دور میں ہی کیوں ہوتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لال قلعہ دھماکے کے فوراً بعد پاکستان کو ملوث ٹھہرانا بی جے پی کا پرانا حربہ ہے تاکہ صرف انتخابی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ بھارتی عوام کا نیا بیانیہ اب واضح ہو گیا ہے: ”یہ دھماکے پاکستان نہیں، سیاست کی فیکٹریاں کروا رہی ہیں۔“

Read Comments