شائع 11 نومبر 2025 12:34pm

سائنس دانوں نے کینسر کو مارنے کے لیے زندہ جراثیموں کو دوا بنا لیا

سائنسدان برسوں سے کینسر کے پیچیدہ علاج کی تلاش میں ہیں، حال ہی میں ایک حیرت انگیز امکان سامنے آیا ہے جس میں زندہ بیکٹیریا کو علاج کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ یہ خیال پہلی نظر میں سائنس فکشن لگتا ہے، لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ کچھ بیکٹیریا انسانی جسم میں موجود کینسر خلیات کو خود نشانہ بنا سکتے ہیں، اور جسم کے مدافعتی نظام کو متحرک کر کے ان پر حملہ کرنے کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ موجودہ علاج ہر قسم کے ٹیومر پر اثر نہیں کر پاتے۔ بعض اوقات ادویات اندر تک پہنچ ہی نہیں پاتیں، یا ٹیومر مدافعتی نظام کے مخصوص حصوں کو دباؤ کے ذریعے علاج کے اثر کو کم کر دیتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بیکٹیریا کے استعمال کی تجویز سامنے آئی ہے۔

ایک صدی پہلے بھی یہ مشاہدہ ہوا کہ کچھ کینسر کے مریض جنہیں انفیکشن ہوا، ان کی بیماری غیر متوقع طور پر کم ہو گئی۔ آج ہم سمجھنے لگے ہیں کہ بیکٹیریا کس طرح جسم کی مدافعتی قوت کو متحرک کر کے کینسر کے خلیات پر قابو پا سکتے ہیں۔

کچھ مخصوص بیکٹیریا کی ایک حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود بخود ٹھوس ٹیومر کے اندر بڑھ جاتے ہیں، جہاں مردہ خلیات سے غذائیت موجود ہوتی ہے اور آکسیجن کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ بیکٹیریا صحت مند بافتوں کو زیادہ متاثر نہیں کرتے اور ٹیومر کے اندر محفوظ رہ کر علاج پہنچا سکتے ہیں۔ یہی خصوصیت انہیں کینسر کے خلاف ہدف شدہ علاج پہنچانے والے کورئیر کے طور پر استعمال کے قابل بناتی ہے۔

ایرانی سائنسدانوں نے کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا

آج کل کی تحقیق اور کلینیکل ٹرائلز میں بیکٹیریا کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا رہا ہے، کچھ انہیں کینسر ویکسین کے لیے لے جا رہے ہیں، جس میں ٹیومر کے منفرد اینٹی جینز جسم کی مدافعتی نظام تک پہنچائے جاتے ہیں تاکہ وہ کینسر کے خلیات کو پہچان اور ختم کر سکے۔ کچھ تجربات میں بیکٹیریا کو کیموتھراپی یا امیونوتھراپی کے ساتھ ملا کر زیادہ مؤثر علاج کے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سائنسدان “بگز ایز ڈرگز” کا تصور بھی پیش کر رہے ہیں، جہاں بیکٹیریا خود دوا پیدا کریں، اسے مخصوص مقام پر چھوڑیں، اور پھر خود بخود ختم ہو جائیں۔

یہ تصور ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ بیکٹیریا زندہ ہیں اور ان کے رویے غیر متوقع ہو سکتے ہیں، اس لیے محفوظ استعمال کے لیے احتیاطی تدابیر اور جینیاتی کنٹرول ضروری ہیں۔ مگر اگر یہ مسائل حل ہو جائیں، تو یہ ”زندہ دوا“ کینسر کے علاج میں ایک انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے، جہاں اسٹاٹک ادویات کے بجائے خود ایڈجسٹ ہونے والے حیاتیاتی نظام بیماری کا مقابلہ کریں۔

یہ تحقیق نہ صرف کینسر کے علاج میں نئے امکانات کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ ہمیں یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ زندگی کے سب سے چھوٹے جاندار، بیکٹیریا، کس طرح انسانی صحت کی حفاظت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ شاید مستقبل میں، ہمارے اندر کے یہ چھوٹے ساتھی ہی وہ علاج فراہم کریں جو سب سے زیادہ پیچیدہ بیماریوں کا مقابلہ کر سکے۔

Read Comments