شائع 10 نومبر 2025 03:39pm

عربی سے نابلد افراد کے لیے اسلام کو آسان کرنے والے اماراتی کانٹنٹ کرئیٹر فارس کون؟

اسلام ایک ایسا دین ہے جس کی تعلیمات اگرچہ سادہ اور صاف ہیں، لیکن ان کی گہری تفہیم حاصل کرنا ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ خاص طور پر غیر عربی بولنے والے مسلمانوں کے لئے یہ ایک مشکل اور پیچیدہ کام بن چکا ہے کہ وہ قرآن اور حدیث کو اپنی زبان میں سمجھیں۔

یہ خلا اور پیچیدگی اکثر ان افراد کو اپنے دین کے بارے میں غیر یقینی میں مبتلا کر دیتی ہے، جو اپنے ایمان کو درست طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم شخصیت ہیں فارس الحمادی۔ آپ ایک اماراتی معلم اور اسلامی رہنما، جو اپنی سادہ اور دلکش ویڈیوز کے ذریعے دین کی پیچیدہ باتوں کو عام فہم انداز میں پیش کر رہے ہیں۔

الحمادی سوالات کو مزید آسان اور سمجھنے کے قابل بھی بناتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز میں اکثر ہنسی مذاق، سادگی، اور حقیقت پسندی کا توازن ہوتا ہے، جو ایک طرف سے لوگوں کو دل کی گہرائیوں میں اُترنے کا موقع فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف پیچیدہ مذہبی اصطلاحات کو غیر محسوس طریقے سے روز مرہ کی زبان میں ڈھالتا ہے۔

الحمادی کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے پہلی بار مسجدوں میں خطبے سننے شروع کیے، تو ان کا مقصد صرف اپنے ایمان کو بہتر سمجھنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک مشن بن گیا، جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان ایک تعلیمی خلا کو پُر کرنا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ اگر مسلمانوں کو اپنی زبان میں صحیح مذہبی رہنمائی ملے، تو یہ نہ صرف ان کی روحانیت کو بڑھائے گا بلکہ دین کے بارے میں غلط فہمیوں کو بھی دور کرے گا۔

الحمادی کی کہانی میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تعلیم اور تجربات کو اسلامی علم کے ساتھ جوڑ کر ایک نیا انداز اختیار کیا۔ انہوں نے اپنی تعلیم میں مارکٹنگ، نشے کی بیماریوں کے علاج، اور تحقیقی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علم کا ان کے مذہبی کام میں گہرا اثر ہے، کیونکہ یہ انہیں اپنے سامعین کے ذہنوں کو سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ”میں جانتا ہوں کہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں، اور میں ان کے لیے دین کو آسان اور قابل فہم بناتا ہوں“، وہ کہتے ہیں۔

ان کی ویڈیوز صرف یو اے ای یا عرب ممالک تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ان کا اثر مغرب میں بھی پھیل رہا ہے جہاں عربی بولنے والے مسلمان کم ہیں۔ الحمادی کی یہ محنت نہ صرف ایک تعلیمی مشن ہے، بلکہ ایک ایسا پل بھی ہے جو مغربی دنیا کے مسلمانوں اور اسلامی سکالرز کے درمیان موجود خلا کو پُر کرتا ہے۔

انگریزی زبان میں موجود عربی الفاظ

ان کے ویڈیوز میں اکثر عام سوالات کا جواب دیا جاتا ہے جو مذہبی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے کہ کسی چیز کو حرام سمجھنا یا معاشرتی رویوں پر اسلام کی نظر۔ ایک ویڈیو میں، جب ایک پیروکار نے ان سے ”پاؤں کی تصاویر بیچنے“ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ہنسی مذاق کے ساتھ جواب دیا، اور یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہو گئی۔ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا، مگر اس کے ذریعے الحمادی نے یہ ثابت کیا کہ دین کی باتیں کبھی بھی بے جا پیچیدگیوں میں نہیں ڈوبی ہونی چاہئیں، بلکہ سادہ اور قابل فہم طریقے سے لوگوں تک پہنچنی چاہئیں۔

الحمادی کا ماننا ہے کہ اسلام کو بہت زیادہ غلط سمجھا گیا ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ان کے نزدیک، اگر وہ کسی شخص کو اس کے ایمان اور شناخت سے جڑنے میں مدد فراہم کر سکیں، تو یہی ان کی کامیابی ہے۔ یہ بات ایک سنگین حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے دین سے دوری محسوس کرتے ہیں، اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو صرف اس لیے سوال نہیں کرتے کہ انہیں درست جواب نہیں مل پاتے۔

فارس الحمادی دبئی کے اسلامی انفارمیشن سینٹر میں مذہبی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں انہوں نے اپنے دین کے بارے میں پیچیدہ تصورات کو سادہ اور گفتگو کے انداز میں پیش کر کے ایک مضبوط سوشل میڈیا فالوئنگ قائم کی ہے۔ ان کے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر لاکھوں فالوورز ہیں، جو ان کی ویڈیوز اور پیغامات سے استفادہ کر رہے ہیں۔

آج کے دور میں جب ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت بڑھ چکی ہے، ایسے علماء اور معلمین کی ضرورت ہے جو دین کو نئے اور آسان طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکیں۔ فارس الحمادی کی ویڈیوز ایک روشن مثال ہیں کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے مذہبی تعلیمات کو غیر پیچیدہ اور آسان بنایا جا سکتا ہے، تاکہ ہر مسلمان اپنی شناخت کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور دنیا کے سامنے ایک روشن، حقیقت پسندانہ تصویر پیش کر سکے۔

اسلام کے بارے میں سوالات کے جوابات دینے سے بڑھ کر، الحمادی ایک ایسی تبدیلی کا پیغام دیتے ہیں جس کی ضرورت صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ پوری دنیا کو ہے۔ ایک ایسا پیغام جو دین کی سچائیوں کو سادہ اور دلکش انداز میں پیش کرے، تاکہ ہر شخص اپنی روحانیت کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور اس کی زندگی میں سکون، محبت، اور ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔

Read Comments