اسرائیلی فوجیوں کا عام شہریوں کے قتل اور انسانی ڈھال بنانے کا اعتراف
اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی بھرپور خلاف ورزیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایک ڈاکومینٹری میں فوجیوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ غزہ میں شہریوں کو بلاوجہ نشانہ بنایا گیا اور بتایا کہ فلسطینیوں کا ڈھال کے طور پر استعمال عام بات تھی۔ حملے کسی فوجی اصول کے بجائے اکثر افسران کے ذاتی فیصلوں پر مبنی ہوتے تھے۔
برطانوی اسٹریمنگ ویب سائٹ آئی ٹی وی کے دستاویزی پروگرام ’بریکنگ رینکس: انسائیڈ اسرائیل وار‘ میں اسرائیلی فوجیوں نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں کارروائیوں کے دوران عام شہریوں پر بِلا وجہ فائرنگ کی گئی اور جنگی ضابطوں کو نظرانداز کیا گیا۔
ٹینک یونٹ کے کمانڈر ڈینیئل نے پروگرام میں فلسطینی شہریوں پر حملوں سے متعلق کہا کہ ’اگر آپ بِلا روک ٹوک فائرنگ کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں، کوئی نہیں روکتا۔‘ اسی طرح ایک اور افسر کیپٹن یوتم ولک نے بتایا کہ تربیت میں سکھائے گئے اصول، کہ فائر صرف اس وقت کیا جائے جب ہدف کی جانب سے حملے کا خطرہ ہو، غزہ میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔
ایک اور سپاہی ایلی نے کہا کہ ’زندگی اور موت کا فیصلہ ضابطوں سے نہیں، بلکہ میدان میں موجود کمانڈر کے ضمیر سے ہوتا ہے۔‘ اس کے مطابق غزہ میں کسی کو دشمن یا دہشت گرد قرار دینا اکثر من مانی بنیادوں پر ہوتا تھا۔ ’اگر کوئی تیز چل رہا ہے تو مشکوک ہے، اگر آہستہ چل رہا ہے تو بھی مشکوک ہے۔‘
اسرائیل کی زیرِ زمین جیل، جہاں فلسطینی بغیر کسی جرم کے قید ہیں
پروگرام میں شامل ایک اور واقعے میں بتایا گیا کہ ایک سینئر افسر نے ایک ایسے مکان کو تباہ کرنے کا حکم دیا جو شہریوں کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ ’ایک شخص چھت پر کپڑے لٹکا رہا تھا، افسر نے اسے دشمن کا جاسوس قرار دے دیا۔ ٹینک نے گولہ داغا، عمارت آدھی منہدم ہوگئی اور کئی لوگ مارے گئے۔‘
دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجی حکام کے اپنے اعدادوشمار کے تحت غزہ میں 83 فیصد ہلاکتیں عام شہریوں کی تھیں۔ جنگ کے آغاز سے اب تک 69 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ وہ ’قانون اور اخلاقی ضوابط‘ کی پابندی کرتی ہے، تاہم بعض فوجیوں نے اعتراف کیا کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے بیانات نے فوجی سوچ کو متاثر کیا، جس سے یہ تاثر پھیلا کہ ’غزہ میں کوئی معصوم نہیں۔‘
دستاویزی پروگرام میں بتایا گیا کہ فوجی یونٹوں کے کچھ مذہبی رہنماؤں نے بھی انتقامی کارروائیوں کی ترغیب دی۔ ایک فوجی نے کہا کہ بریگیڈ کے ربی نے اُسے کہا: ’ہمیں 7 اکتوبر کی طرح بدلہ لینا چاہیے، چاہے وہ عام شہری ہی کیوں نہ ہوں۔‘
انتہا پسند مذہبی رہنما ربی ابراہام زربیف نے پروگرام میں کہا کہ ’غزہ کی ہر چیز ایک بڑی دہشت گردی کی ساخت ہے۔‘ اس نے اعتراف کیا کہ وہ خود بلڈوزر چلا کر فلسطینی علاقوں کو مسمار کرتا رہا اور فوج کو اس طرزِعمل اپنانے پر آمادہ کیا۔
امریکا نے غزہ امن منصوبے کی فیصلہ سازی سے اسرائیل کو نکال دیا
پروگرام میں شامل فوجیوں نے عام شہریوں کے بطور ’انسانی ڈھال‘ کے استعمال کی تصدیق بھی کی، جسے وہ غیر رسمی طور پر ’مچھر پروٹوکول‘ کہتے ہیں۔ ایک کمانڈر کے مطابق ’ہم فلسطینی شہری کو سرنگ میں بھیجتے، اس کے لباس میں آئی فون لگا ہوتا، جو راستے کا جی پی ایس ڈیٹا واپس بھیجتا۔‘
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اِن الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو انسانی ڈھال بنانے پر سخت پابندی ہے اور ایسی شکایات کی تحقیقات جاری ہیں۔
دستاویزی فلم کا حصہ ایک ٹھیکیدار سیم نے بتایا کہ امداد کی تقسیم کے مقامات پر غیر مسلح فلسطینیوں کو بھی گولیاں ماری گئیں۔ اس نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا ’دو نوجوان امداد کے لیے دوڑ رہے تھے، دو فوجی گھٹنوں کے بَل بیٹھے اور دو گولیاں چلائیں، اور دونوں نوجوان موقع پر ہی گر پڑے۔‘
پروگرام کے آخر میں ایک فوجی نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی ہونے اور فوجی افسر ہونے کا میرا فخر ختم کر دیا ہے، اب صرف شرمندگی باقی ہے۔‘