شائع 10 نومبر 2025 02:46pm

دوران حمل پیراسیٹامول کا استعمال بچوں کو ذہنی مریض بناتا ہے؟

گزشتہ کچھ برسوں سے دنیا بھر میں ایک سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حمل کے دوران پیراسٹامول کا استعمال بچوں میں آٹزم یا اے ڈی ایچ ڈی جیسے عوارض پیدا کر سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کی بحثوں، سیاسی بیانات اور غیر مصدقہ خبروں نے اس سوال کو اور بھی الجھا دیا۔ مگر حال ہی میں ”برٹش میڈیکل جرنل“ میں شائع ہونے والی ایک جامع تحقیق نے اس موضوع پر چھائے خدشات کو بڑی حد تک زائل کر دیا ہے۔

برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ تحقیق، جسے ”امبریلا ریویو“ کہا جاتا ہے، دراصل درجنوں سابقہ سائنسی مطالعات کا مجموعی تجزیہ ہے۔ ماہرین نے پیراسٹامول کے اثرات پر کی گئی نو منظم تحقیقات اور چالیس مشاہداتی مطالعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔

ان تحقیقات میں دیکھا گیا کہ کیا حمل کے دوران پیراسٹامول لینے والی ماؤں کے بچوں میں آٹزم یا اے ڈی ایچ ڈی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ بعض مطالعات نے معمولی تعلق کی نشاندہی کی، لیکن مجموعی طور پر شواہد کی کوالٹی اتنی کمزور تھی کہ کوئی بھی مضبوط نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا۔

کیا دوران حمل ناریل کا پانی پینے سے بچے کے رنگ پر فرق پڑتا ہے؟

تحقیق میں شامل ایک بڑے سویڈش مطالعے کے نتائج خاص طور پر اہم ہیں۔ دو اعشاریہ چار ملین بچوں کے ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ بظاہر پیراسٹامول لینے والی ماؤں کے بچوں میں آٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی کی شرح کچھ زیادہ تھی، مگر جب انہی خاندانوں کے بہن بھائیوں کا موازنہ کیا گیا یعنی وہ بچے جنہیں حمل کے دوران پیراسٹامول کا سامنا ہوا اور وہ جنہیں نہیں، تو یہ فرق ختم ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل اثر دوا کا نہیں بلکہ خاندانی جینیات، ماں کی صحت یا دیگر ماحولیات کا ہو سکتا ہے۔

دی گارجین کے مطابق پروفیسر شکیلہ تھنگارتینم، جو یونیورسٹی آف لیورپول سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں کہ خواتین کو بلاوجہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق، ”حالیہ شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے کہ پیراسٹامول آٹزم یا اے ڈی ایچ ڈی کا سبب بنتا ہے۔ اگر حاملہ عورت کو بخار یا درد ہو تو اسے دوا ضرور لینی چاہیے، کیونکہ بخار خود جنین کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔“

یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ دیگر عام درد کش ادویات جیسے آئبوپروفین یا اسپرین حمل کے دوران محفوظ نہیں سمجھی جاتیں۔ اسی لیے ماہرین متفق ہیں کہ پیراسٹامول اب بھی سب سے محفوظ اور موزوں انتخاب ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر دیمتریوس سیاساکوس کے مطابق، ”پیراسٹامول دہائیوں سے دنیا بھر کی حاملہ خواتین استعمال کر رہی ہیں اور کبھی کوئی سائنسی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ اس سے بچوں میں ذہنی یا اعصابی امراض بڑھتے ہیں۔“

یہ تحقیق محض ایک سائنسی وضاحت نہیں بلکہ ایک سماجی پیغام بھی ہے۔ بہت سی مائیں جن کے بچے آٹزم یا اے ڈی ایچ ڈی میں مبتلا ہیں، خود کو اس خیال سے مجرم سمجھتی ہیں کہ شاید حمل کے دوران ان کی کوئی دوا یا عمل اس کا سبب بنا۔ پروفیسر تھنگارتینم کے الفاظ میں، ”یہ ایک تکلیف دہ احساس ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔“

حقیقت یہ ہے کہ آٹزم کی بڑھتی ہوئی شرح دراصل بہتر تشخیص، آگاہی اور تشخیصی معیار میں وسعت کا نتیجہ ہے، نہ کہ پیراسٹامول یا کسی مخصوص دوا کا۔ چنانچہ یہ تحقیق نہ صرف ایک سائنسی وضاحت فراہم کرتی ہے بلکہ ماؤں کے دلوں میں بسنے والے غیرضروری خوف کو بھی کم کرتی ہے۔

اختتامی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پیراسٹامول، جب درست مقدار میں اور طبی مشورے کے تحت استعمال کیا جائے، حمل کے دوران محفوظ ہے۔ بخار یا درد کی صورت میں اس کا استعمال ماں اور بچے دونوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ خطرہ دوا میں نہیں، بلکہ خوف میں پوشیدہ ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس خوف کو علم سے بدل دیں۔

Read Comments